زندگانی سے لپٹ کر خود کو بہلاتا ہوں میں
زندگانی سے لپٹ کر خود کو بہلاتا ہوں میں
یہ کہانی روز اپنے آپ دہراتا ہوں میں
صبح دم میں کھولتا ہوں قفل جس زندان کا
دن ڈھلے اس قید خانے میں پلٹ آتا ہوں میں
پاٹتا رہتا ہوں دن بھر اک خلیج ذات کو
پھر کسی انجان اندیشے سے پچھتاتا ہوں میں
دن چڑھے اوہام کی منڈی میں سودا بیچ کر
رات کو افکار کے بستر پہ گر جاتا ہوں میں
اوڑھ لیتا ہوں میں چادر عقل و استدلال کی
داستانوں لوریوں سے خود کو بہلاتا ہوں میں
خواب میں اکثر کنارے چشمۂ امکان کے
مستیٔ حرف و سخن کی لے میں چکراتا ہوں میں
چھوڑتا ہوں ہاتھ اپنا شاہراہ شوق پر
منزل مقصود پر پھر خود کو مل جاتا ہوں میں
جب بھی ملتا ہوں خود اپنے آپ سے تنہائی میں
پوچھتا ہوں کیا گنوایا اور کیا پاتا ہوں میں
خود ہی کرتا ہوں تری یادیں میں ماضی کے سپرد
پھر کہیں سے ایک لمحہ ڈھونڈ کر لاتا ہوں میں
تجھ میں اکثر ڈھونڈھتا ہوں میں تجھے عاصمؔ مگر
تو کہاں ہے کون ہے کب کس کو سمجھاتا ہوں میں