ریت پہ جب بھی گھر رہے گا یہ
ریت پہ جب بھی گھر رہے گا یہ کب پھسل جائے ڈر رہے گا یہ پتے اتنے بکھر رہے ہیں کیوں پیڑ کیا سوکھ کر رہے گا یہ ایک تتلی کے رنگ سے کھیلا مجھ کو دکھ عمر بھر رہے گا یہ رنگ ہونٹوں کا اتنا پکا تھا بے نشاں گال پر رہے گا یہ
ریت پہ جب بھی گھر رہے گا یہ کب پھسل جائے ڈر رہے گا یہ پتے اتنے بکھر رہے ہیں کیوں پیڑ کیا سوکھ کر رہے گا یہ ایک تتلی کے رنگ سے کھیلا مجھ کو دکھ عمر بھر رہے گا یہ رنگ ہونٹوں کا اتنا پکا تھا بے نشاں گال پر رہے گا یہ
راہ وفا میں جو بھی کوئی جانشیں بنے تجھ سا بنے تو خیر ہے مجھ سا نہیں بنے شاید ہمارے واسطے کوئی نہیں بنا شاید کسی کے واسطے ہم بھی نہیں بنے ساری زمیں کے واسطے اک آسماں بنا سو آسماں کے واسطے ہم بھی مکیں بنے سب حسن بن چکے ہیں تو سب سے حسین ہے شاید جہاں میں اب کوئی تجھ سا حسیں ...
نظر جھکا کے نظر سے گرا گئے مجھ کو میں آئنہ تھا حقیقت دکھا گئے مجھ کو میں بے گناہی کا اپنی ثبوت کیا دیتا وہ ساری غلطیاں میری گنا گئے مجھ کو بچھڑتے وقت انگوٹھی کو دے گئے واپس وہ جاتے جاتے بھی کتنا رلا گئے مجھ کو ستم کیے ہے مرے ساتھ اس قدر عاقبؔ میں موم تھا وہ تو پتھر بنا گئے مجھ ...
مجھ کو اس طور تجھ کو پانا ہے جیسے تو حسن کا خزانہ ہے پہلے ضد تھی کے چھونا ہے اس کو اب یہ ضد ہے کہ اس کو پانا ہے اس کے ہونٹھوں کو پڑھ رہا ہوں میں جس کے ہونٹوں تلک ہی جانا ہے آ گیا ہوں میں تیرے ہونٹوں تک تجھ کو باہوں تلک ہی آنا ہے تیری گردن کے پیچھے تل ہے جو اس کو ہونٹوں سے بس لگانا ...
وہ یوں بوڑھے سے بچہ ہو گیا ہے کی جیسے پیڑ پودھا ہو گیا ہے طرف داری بہت کرتا ہے تیری قلم تیرا دیوانہ ہو گیا ہے نظر انداز ایسے کر گیا وہ کی شیشہ جیسے اندھا ہو گیا ہے چلو بابا کوئی پوشاک لے لو لیے کپڑے زمانہ ہو گیا ہے نہیں ہیں پیاس کے معنی کوئی اب ندی کا پانی میلا ہو گیا ہے
کتنی مشکل سے اس کو ڈھونڈا ہے بے سبب دل کہاں یہ ٹوٹا ہے اچھی صورت کا کیا کریں چرچا اچھی خوشبو سے پھول بکتا ہے اس کے بچوں کی ایسی سیرت ہے ویسے اینٹیں ہیں جیسا خانچہ ہے اس کے وعدے کی کیا میں بات کروں کچا دھاگہ بھی اس سے پکا ہے تیری زلفوں سے بس رہا ہو کر میں نے پنجرے کا درد سمجھا ...
جواب سوچ کے مجھ کو جواب دے دینا زباں سے کہہ نہ سکو تو گلاب دے دینا کبھی جو صدقہ نکالو مری محبت کا تو میری آنکھوں کے حصے کے خواب دے دینا وفا کی راہ میں دل تم سے مانگ لے کوئی تو دل یہ ہنس کے اسے تم جناب دے دینا کہ ہم نے کتنی دفعہ انگلیاں پھرائی تھیں کبھی یہ زلف کا اپنی حساب دے ...
عشق میں اشک جو بہاتے ہو آگ پانی کو تم ملاتے ہو سارے پکوان پھر لگیں پھیکے ہونٹھ جب ہونٹھ سے لگاتے ہو ایک کانٹے سے پھول نے بولا شکریہ تم مجھے بچاتے ہو تیرنے کا ہنر نہیں پھر بھی گہرے پانی میں کیوں نہاتے ہو ڈر ہے جب دل کے ٹوٹ جانے کا ریت پہ گھر ہی کیوں بناتے ہو اتنا کیوں بغض ہے ...
یہ میرے سامنے شیشہ لگا دیا کس نے یہ مجھ کو آج مجھی سے ملا دیا کس نے وہ اپنے چہرے کا ڈھونڈھے ہے داغ شیشے میں ہے داغ چاند پہ اس کو بتا دیا کس نے وہ جس کے اشکوں سے پوری زمین گیلی ہے ہوا سے پوچھو گھٹا کو رلا دیا کس نے تھا قید دل کا پرندہ جو ان کی آنکھوں میں نظر یہ ان سے ملا کر اڑا دیا ...
جس کے نیزے پہ ہے یہ سر میرا اس کے آنکھوں میں دیکھ ڈر میرا پیاس پانی کو لگ رہی ہوگی آگ کا جسم دیکھ کر میرا ہم غریبوں کا یہ اثاثہ ہے ایک دستار اور یہ سر میرا نقش پا تک نہیں بنے اس کے جب کہ صحرا میں ہے یہ گھر میرا جب سے ٹھکرا دیا ترے غم نے دل یہ پھرتا ہے در بہ در میرا نا خدا ڈوبنے سے ...