Alimuddin Aleem

علیم الدین علیم

علیم الدین علیم کی غزل

    موقع رقص نہ دے گی مجھے تقدیر ابھی

    موقع رقص نہ دے گی مجھے تقدیر ابھی ہے مرے پاؤں میں حالات کی زنجیر ابھی پھر جلا لینا اجالے کی ضرورت ہو اگر ادھ جلے گھر میں تو موجود ہے شہتیر ابھی لاؤ لشکر میاں رہتے مرے آگے پیچھے کاش رہتی مرے اجداد کی جاگیر ابھی تم نہ پہچان سکو گے اسے آسانی سے وقت کی گرد میں گم ہے مری تصویر ...

    مزید پڑھیے

    سن کے بھی میری صدا کیا کرتا

    سن کے بھی میری صدا کیا کرتا وہ تو پتھر ہے وفا کیا کرتا وقت کی چیخ پہ آنکھیں نہ کھلیں سرد احساس بھلا کیا کرتا ہر قدم پر تھی ہوا کی یورش ایک تنہا سا دیا کیا کرتا مجھ سے قربت ہی نہیں تھی اس کو پوچھ کر حال مرا کیا کرتا جس کو جینے کی تمنا ہی نہ تھی زندگی لے کے بتا کیا کرتا ناؤ ساحل ...

    مزید پڑھیے

    بیڑیاں اپنے اے اسیر نہ دیکھ

    بیڑیاں اپنے اے اسیر نہ دیکھ ہاتھ اٹھا ہاتھ کی لکیر نہ دیکھ عقل رکھتا ہے تو سمجھ مفہوم صرف الفاظ بے نظیر نہ دیکھ گھر سے نکلا ہے جب دعا دیتے کون مفلس ہے یا امیر نہ دیکھ کوئی خوبی نظر نہ آئے گی میری تصویر عیب گیر نہ دیکھ کون سن کر صدا نہ آئے گا بند دروازہ اے فقیر نہ دیکھ عزم کا ...

    مزید پڑھیے

    کھلا دماغ تو پھر دل کو صاف کرنا پڑا

    کھلا دماغ تو پھر دل کو صاف کرنا پڑا مری وفا کا اسے اعتراف کرنا پڑا وہ اپنے چہرے پہ رکھتا تھا دوسرا چہرہ فریب کھا کے مجھے انکشاف کرنا پڑا تھیں ایسی کون سی مجبوریاں تمہارے لئے کہ اہل دل سے تمہیں اختلاف کرنا پڑا چہار سمت گناہوں کے ہاتھ پھیلے تھے اسی لئے تو مجھے اعتکاف کرنا ...

    مزید پڑھیے

    وسعت ہے ترے ذہن میں تو تاج محل رکھ

    وسعت ہے ترے ذہن میں تو تاج محل رکھ یہ تاج محل میرا ہے لے میری غزل رکھ یہ قول بزرگوں کا ہے مت ہنس کے اسے ٹال بچوں کی رکابی میں سدا پیار کا پھل رکھ آتا ہے ہر اک سال ترے گاؤں میں سیلاب پلکوں پہ مرے یار نہ سپنوں کا محل رکھ ٹھوکر سے بچانا ہے اگر اپنی انا کو دل میں نہ سہی اپنے لبوں پر تو ...

    مزید پڑھیے

    ہے کوئی بات یقیناً نصاب کے پیچھے

    ہے کوئی بات یقیناً نصاب کے پیچھے سوال تن کے کھڑا ہے جواب کے پیچھے یہ اور بات کہ گلشن کو ناز ہے اس پر مگر ہیں سیکڑوں کانٹے گلاب کے پیچھے میں اس کے سامنے رسوا کبھی نہیں ہوتا چھپا ہوا ہوں جنوں کی کتاب کے پیچھے بجھے گی پیاس نہ ہرگز قریب جا کر بھی مگر وہ بھاگ رہا ہے سراب کے ...

    مزید پڑھیے

    ہماری طرح تم تڑپو تو جانیں

    ہماری طرح تم تڑپو تو جانیں مسلسل رات بھر جاگو تو جانیں وضو میری طرح اشکوں سے کر کے غزل کے بام تک پہنچو تو جانیں سبھی چہرے یہاں ہیں ایک جیسے ستم گر کون ہے پرکھو تو جانیں وہ وحشی بے سبب چنگھاڑتا ہے بناؤ آدمی اس کو تو جانیں جلا کر عشق کی قندیل دل میں اندھیری راہ سے گزرو تو ...

    مزید پڑھیے

    جن کے ہاتھوں میں کبھی شیشہ تھا پتھر دیکھا

    جن کے ہاتھوں میں کبھی شیشہ تھا پتھر دیکھا وقت کا کیسا یہ بدلا ہوا منظر دیکھا دیکھ کر مجھ کو تو منہ پھیر لیا کرتے تھے آج کیا بات ہے تم نے مجھے ہنس کر دیکھا جل گیا نخل انا خاک ہوئی شاخ ضمیر چہرۂ گل نے عجب دھوپ کا منظر دیکھا میرے اسلاف نے احسان کیے تھے جن پر میں نے ان کو بھی حریفوں ...

    مزید پڑھیے

    خون میں ڈوبا ہوا شہر کا منظر ہے میاں

    خون میں ڈوبا ہوا شہر کا منظر ہے میاں ایسے ماحول سے تو گاؤں ہی بہتر ہے میاں کس گھڑی کیا ہو مرے ساتھ کوئی ٹھیک نہیں ان دنوں چاروں طرف خوف کا لشکر ہے میاں عافیت اس میں تمہاری ہے کہ خاموش رہو اور کہنے کو مرے پاس بھی دفتر ہے میاں عمر بھر تیشہ زنی میری طرح کون کرے سخت پتھر کی طرح میرا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے لوگوں سے رابطہ رکھو

    اپنے لوگوں سے رابطہ رکھو پاس رسم و رہ وفا رکھو ٹوٹ جائے گا دل جدائی سے آنے جانے کا سلسلہ رکھو راہ دریا میں گر بنانا ہے ہاتھ میں موسوی عصا رکھو خلد ہے ان کے پاؤں کے نیچے ماں کو کس نے کہا خفا رکھو ناؤ خود ہی بھنور سے نکلے گی ناخدا ہو تو حوصلہ رکھو حال چہرے کا وہ بتا دے گا سامنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2