کھلا دماغ تو پھر دل کو صاف کرنا پڑا
کھلا دماغ تو پھر دل کو صاف کرنا پڑا
مری وفا کا اسے اعتراف کرنا پڑا
وہ اپنے چہرے پہ رکھتا تھا دوسرا چہرہ
فریب کھا کے مجھے انکشاف کرنا پڑا
تھیں ایسی کون سی مجبوریاں تمہارے لئے
کہ اہل دل سے تمہیں اختلاف کرنا پڑا
چہار سمت گناہوں کے ہاتھ پھیلے تھے
اسی لئے تو مجھے اعتکاف کرنا پڑا
دیا جب اپنی اداؤں کا واسطہ اس نے
تو بے وفا کو مجھے خود معاف کرنا پڑا
خدا ہی جانے کہ دیکھا تو کیا ہوا احساس
کہ روئے گل کا نظر سے طواف کرنا پڑا
رہا نہ ضبط کا یارا تو ایک دن آخر
علیمؔ اپنے ہی دل میں شگاف کرنا پڑا