وسعت ہے ترے ذہن میں تو تاج محل رکھ

وسعت ہے ترے ذہن میں تو تاج محل رکھ
یہ تاج محل میرا ہے لے میری غزل رکھ


یہ قول بزرگوں کا ہے مت ہنس کے اسے ٹال
بچوں کی رکابی میں سدا پیار کا پھل رکھ


آتا ہے ہر اک سال ترے گاؤں میں سیلاب
پلکوں پہ مرے یار نہ سپنوں کا محل رکھ


ٹھوکر سے بچانا ہے اگر اپنی انا کو
دل میں نہ سہی اپنے لبوں پر تو کنول رکھ


مت دیکھ علیمؔ اہل عداوت کی صفوں کو
لڑنا ہے تو پھر اپنے ارادے کو اٹل رکھ