ہماری طرح تم تڑپو تو جانیں
ہماری طرح تم تڑپو تو جانیں
مسلسل رات بھر جاگو تو جانیں
وضو میری طرح اشکوں سے کر کے
غزل کے بام تک پہنچو تو جانیں
سبھی چہرے یہاں ہیں ایک جیسے
ستم گر کون ہے پرکھو تو جانیں
وہ وحشی بے سبب چنگھاڑتا ہے
بناؤ آدمی اس کو تو جانیں
جلا کر عشق کی قندیل دل میں
اندھیری راہ سے گزرو تو جانیں
ہوائے غم ادھر پھر آ رہی ہے
دریچہ ذہن کا کھولو تو جانیں
بھرا ہے جس کی آنکھوں میں اندھیرا
اسے کہتے ہو کیوں دیکھو تو جانیں
وہ کیوں رکھتا ہے اب نیفے میں چاقو
علیمؔ اس سے ذرا پوچھو تو جانیں