جن کے ہاتھوں میں کبھی شیشہ تھا پتھر دیکھا
جن کے ہاتھوں میں کبھی شیشہ تھا پتھر دیکھا
وقت کا کیسا یہ بدلا ہوا منظر دیکھا
دیکھ کر مجھ کو تو منہ پھیر لیا کرتے تھے
آج کیا بات ہے تم نے مجھے ہنس کر دیکھا
جل گیا نخل انا خاک ہوئی شاخ ضمیر
چہرۂ گل نے عجب دھوپ کا منظر دیکھا
میرے اسلاف نے احسان کیے تھے جن پر
میں نے ان کو بھی حریفوں کے برابر دیکھا
ہم سفر جن کو سمجھتے تھے انہیں ہم نے علیمؔ
آستینوں میں چھپائے ہوئے خنجر دیکھا