اپنے لوگوں سے رابطہ رکھو

اپنے لوگوں سے رابطہ رکھو
پاس رسم و رہ وفا رکھو


ٹوٹ جائے گا دل جدائی سے
آنے جانے کا سلسلہ رکھو


راہ دریا میں گر بنانا ہے
ہاتھ میں موسوی عصا رکھو


خلد ہے ان کے پاؤں کے نیچے
ماں کو کس نے کہا خفا رکھو


ناؤ خود ہی بھنور سے نکلے گی
ناخدا ہو تو حوصلہ رکھو


حال چہرے کا وہ بتا دے گا
سامنے اپنے آئنہ رکھو


فیصلہ کیا کرے گا وہ جانے
تم مگر اپنا مدعا رکھو


ہے اسی میں علیمؔ دانائی
اپنے دشمن کو ہم نوا رکھو