ہے کوئی بات یقیناً نصاب کے پیچھے
ہے کوئی بات یقیناً نصاب کے پیچھے
سوال تن کے کھڑا ہے جواب کے پیچھے
یہ اور بات کہ گلشن کو ناز ہے اس پر
مگر ہیں سیکڑوں کانٹے گلاب کے پیچھے
میں اس کے سامنے رسوا کبھی نہیں ہوتا
چھپا ہوا ہوں جنوں کی کتاب کے پیچھے
بجھے گی پیاس نہ ہرگز قریب جا کر بھی
مگر وہ بھاگ رہا ہے سراب کے پیچھے
کہاں ہے نیند کے صحرا میں چھوڑنے والا
بھٹک نہ جاؤں کہیں میں بھی خواب کے پیچھے
علیمؔ جلوہ نگاہوں میں کس طرح آتا
چھپا تھا حسن کسی کا حجاب کے پیچھے