Ali Asghar

علی اصغر

علی اصغر کی نظم

    جنت

    ہری مرچ املی کی چٹنی کچی پیاز اور سوکھی روٹی جی بھر کے چشمے کا پانی سر پہ جنگلی پیڑ کا سایا اور یہ دنیا جنت ہے

    مزید پڑھیے

    تنہا

    ایک پرندہ پاگل یخ بستہ جاڑوں میں برگد کی ننگی ٹہنی پر راتوں کو چیخا کرتا ہے اس برگد پر جس کی شاخوں کے نیچے ہم خوابوں کی دنیا میں کھو کر راتیں کاٹ دیا کرتے تھے

    مزید پڑھیے

    ادراک

    جسم سے روح کے فاصلے طے کرو روز و شب ان خلاؤں میں اڑتے رہو اور پھر جب سمندر میں گرنے لگو تو کہو چاند سورج ستارے زمیں آسماں میرے اپنے بدلتے ہوئے نام ہیں ہر جگہ میں ہوں میرے سوا کچھ نہیں

    مزید پڑھیے

    اجنبی شہر میں

    اجنبی شہر میں اجنبیت کا احساس ہوتا نہیں پھول پتے ہرے پیڑ پرچھائیاں اونچی نیچی عمارات سڑکیں گلی کوچے بازار مسکراتے ہوئے راستے کتنے مانوس ہیں ہر طرف روح پرور سکوں دل کی گہرائیوں سے مخاطب ہے ٹھنڈی ہوا ذہن کے تانے بانے بدلنے لگی زندہ رہنے کی خواہش مچلنے لگی رات ڈھلنے لگی زندگی ...

    مزید پڑھیے

    سناٹا

    کس کے قدموں کی آہٹ ہے دروازے پر کون آیا ہے آدھی رات کے سناٹے میں آہیں بھرنے اس سے کہہ دو یہ گھر صدیوں سے خالی ہے الو چیخا برگد بولا سرد ہوا کا تنہا جھونکا دیوار دل سے سر ٹکرا کر لوٹ گیا ہے

    مزید پڑھیے

    سورج کی آنکھ نہیں روتی

    لمحہ لمحہ موم پگھلتا ہے کھارا پانی کوئی نہیں پیتا کتنے جگنو سرد ہوا کے اک جھونکے سے بجھ جاتے ہیں چلمن سے باہر جھانکنے والے آنسو کی کیا قیمت ہے سورج کی آنکھ نہیں روتی دل جلتا ہے

    مزید پڑھیے

    عرفان

    کتابیں سمندر کی تہہ میں ڈبو دو کتابوں میں کیا ہے وہی راز پنہاں جسے عقل انساں نے صدیوں ٹٹولا فلاطوں نے جانچا ارسطو نے پرکھا وہی راز پنہاں ہماری جبینوں پہ لکھا ہوا ہے اسے تم بھی پڑھ لو اسے میں بھی پڑھ لوں مگر شرط یہ ہے کہ آنکھیں کھلی ہوں

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2