جنت
ہری مرچ املی کی چٹنی کچی پیاز اور سوکھی روٹی جی بھر کے چشمے کا پانی سر پہ جنگلی پیڑ کا سایا اور یہ دنیا جنت ہے
ہری مرچ املی کی چٹنی کچی پیاز اور سوکھی روٹی جی بھر کے چشمے کا پانی سر پہ جنگلی پیڑ کا سایا اور یہ دنیا جنت ہے
ایک پرندہ پاگل یخ بستہ جاڑوں میں برگد کی ننگی ٹہنی پر راتوں کو چیخا کرتا ہے اس برگد پر جس کی شاخوں کے نیچے ہم خوابوں کی دنیا میں کھو کر راتیں کاٹ دیا کرتے تھے
جسم سے روح کے فاصلے طے کرو روز و شب ان خلاؤں میں اڑتے رہو اور پھر جب سمندر میں گرنے لگو تو کہو چاند سورج ستارے زمیں آسماں میرے اپنے بدلتے ہوئے نام ہیں ہر جگہ میں ہوں میرے سوا کچھ نہیں
اجنبی شہر میں اجنبیت کا احساس ہوتا نہیں پھول پتے ہرے پیڑ پرچھائیاں اونچی نیچی عمارات سڑکیں گلی کوچے بازار مسکراتے ہوئے راستے کتنے مانوس ہیں ہر طرف روح پرور سکوں دل کی گہرائیوں سے مخاطب ہے ٹھنڈی ہوا ذہن کے تانے بانے بدلنے لگی زندہ رہنے کی خواہش مچلنے لگی رات ڈھلنے لگی زندگی ...
کس کے قدموں کی آہٹ ہے دروازے پر کون آیا ہے آدھی رات کے سناٹے میں آہیں بھرنے اس سے کہہ دو یہ گھر صدیوں سے خالی ہے الو چیخا برگد بولا سرد ہوا کا تنہا جھونکا دیوار دل سے سر ٹکرا کر لوٹ گیا ہے
لمحہ لمحہ موم پگھلتا ہے کھارا پانی کوئی نہیں پیتا کتنے جگنو سرد ہوا کے اک جھونکے سے بجھ جاتے ہیں چلمن سے باہر جھانکنے والے آنسو کی کیا قیمت ہے سورج کی آنکھ نہیں روتی دل جلتا ہے
کتابیں سمندر کی تہہ میں ڈبو دو کتابوں میں کیا ہے وہی راز پنہاں جسے عقل انساں نے صدیوں ٹٹولا فلاطوں نے جانچا ارسطو نے پرکھا وہی راز پنہاں ہماری جبینوں پہ لکھا ہوا ہے اسے تم بھی پڑھ لو اسے میں بھی پڑھ لوں مگر شرط یہ ہے کہ آنکھیں کھلی ہوں