احمد عظیم کی غزل

    مثال برگ شکستہ ہوا کی زد پر ہے

    مثال برگ شکستہ ہوا کی زد پر ہے کوئی چراغ اکیلا ہوا کی زد پر ہے امان ڈھونڈ رہا ہے کھلا ہوا پانی محبتوں کا جزیرہ ہوا کی زد پر ہے کراہتی ہیں کسی کے فراق میں شامیں دل ایسا ایک شگوفہ ہوا کی زد پر ہے منائیں خیر کہو ساحلوں سے آج کی رات سبک خرام سا دریا ہوا کی زد پر ہے وفور رنج تمنا سے ...

    مزید پڑھیے

    اک تبسم کا تھا سودا ہم کو

    اک تبسم کا تھا سودا ہم کو تو نے سستے میں خریدا ہم کو موج در موج ہے غم ہائے فراق پار کرنا ہے یہ دریا ہم کو بھولتے جاتے ہیں تجھ کو جاناں زخم دے پھر کوئی تازہ ہم کو بیٹھ جاتے کسی دیوار کے ساتھ کب ہوا یہ بھی گوارہ ہم کو اے فلک تھوڑی سی رحمت ہم پر اے زمیں تھوڑا سا ٹکڑا ہم کو

    مزید پڑھیے

    بچھڑ گیا تھا تو اس کا خیال کیوں آیا

    بچھڑ گیا تھا تو اس کا خیال کیوں آیا یہی تو دکھ ہے کہ شیشے میں بال کیوں آیا نئی کرن سے ابھی آشنا ہوئی تھی زمیں جواں تھا مہر یہ اس پر زوال کیوں آیا جب ایک برگ نہ اشجار آرزو پہ رہا تو مست موسم باد شمال کیوں آیا ہر آرزو ہوئی کیوں اس کی بزم میں گھائل ہر ایک خواب وہاں سے نڈھال کیوں ...

    مزید پڑھیے

    جبر اور اختیار سے آگے

    جبر اور اختیار سے آگے کب گئے اس دیار سے آگے ایک آئین ہے طلوع و غروب جیسے پت جھڑ بہار کے آگے کون سی مملکت کی سرحد ہے جسم و جاں کے دیار سے آگے خامشی کا مہیب صحرا ہے سبزہ زار پکار سے آگے بارشوں سے کھلی ہے ہریالی شہر گرد و غبار سے آگے

    مزید پڑھیے

    عمر بھر سائبان میں رہنا

    عمر بھر سائبان میں رہنا تم جہاں ہو امان میں رہنا یاد کا یہ بھی سلسلہ ہے بہت اک کرن کا گمان میں رہنا جب کوئی آرزو نہ رہ جائے دل کے خالی مکان میں رہنا نفرتیں بارشوں کی صورت ہیں آگ کے درمیان میں رہنا صورت سرخیٔ فسانۂ گل تم مری داستان میں رہنا

    مزید پڑھیے

    کیا شب تھی کہ دل کھول کے رو بھی نہ سکے ہم

    کیا شب تھی کہ دل کھول کے رو بھی نہ سکے ہم جاگے بھی نہیں ٹھیک سے سو بھی نہ سکے ہم اس خاک سے کیا ہم کو گلہ در بدری کا جس خاک کے جی جان سے ہو بھی نہ سکے ہم کیا کشت شب ہجر ہری ہو کہ یہاں تو اک بوند لہو رنگ کی بو بھی نہ سکے ہم گرد غم ایام سے آلودہ تھیں آنکھیں دید گل رخسار سے دھو بھی نہ سکے ...

    مزید پڑھیے

    سبزہ ہوا سے اولیں برسات میں کھلا

    سبزہ ہوا سے اولیں برسات میں کھلا وہ شخص مجھ سے پہلی ملاقات میں کھلا روح و دل و بدن کے تقاضے سراب تھے یہ بھی عذاب کشمکش ذات میں کھلا سارے بدن پہ زخم نمایاں تھے دن چڑھے شب بھر رہا تھا کوئی میری گھات میں کھلا مٹنے تھے سارے رنگ دھنک کے نگاہ سے تحریر یہ بھی دکھ تھا مرے ہات میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک حرف مدعا تھا داستاں کیسے ہوا

    ایک حرف مدعا تھا داستاں کیسے ہوا ریگ کا یہ سلسلہ آب رواں کیسے ہوا وہ ابھی ہم راہ تھا اس زندگی کے دشت میں عمر بھر کا ساتھ پل میں رائیگاں کیسے ہوا آشنائی میں وہ چہرہ صورت خورشید تھا اجنبی ہو کر وہی چہرہ دھواں کیسے ہوا دل تو پہلے ہی لہو تھا دشنۂ ایام سے تجھ سے یہ وار ستم اے مہرباں ...

    مزید پڑھیے

    خزاں کا سوگ یا جشن بہار کرتے ہوئے

    خزاں کا سوگ یا جشن بہار کرتے ہوئے کٹی ہے عمر ترا انتظار کرتے ہوئے شرف یہ صرف مقدر تھا آئنے کے لیے کہ دیکھتا رہا تجھ کو سنگھار کرتے ہوئے سفر کی شام کا منظر لہو میں ڈوب گیا سبھی ملول تھے تجھ کو سوار کرتے ہوئے لہو بجھا نہ سکا قاتلوں کی پیاس کبھی تھکی نہ شمع پتنگے شکار کرتے ...

    مزید پڑھیے

    دل اس ہجوم شہر میں تنہا کہیں جسے

    دل اس ہجوم شہر میں تنہا کہیں جسے ایسا نہیں کوئی کہ شناسا کہیں جسے آنکھوں میں چبھ رہی ہے کوئی موج موج ریگ وحشت بدن میں پھیلتا صحرا کہیں جسے بھیجے ہیں اس نے پھول بہت سے گلاب کے تجدید دوستی کا تقاضا کہیں جسے پھینکا ہے اس نے ایک تبسم بہ طرز گل ساری ستم گری کا ازالہ کہیں جسے دیکھا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2