مثال برگ شکستہ ہوا کی زد پر ہے
مثال برگ شکستہ ہوا کی زد پر ہے کوئی چراغ اکیلا ہوا کی زد پر ہے امان ڈھونڈ رہا ہے کھلا ہوا پانی محبتوں کا جزیرہ ہوا کی زد پر ہے کراہتی ہیں کسی کے فراق میں شامیں دل ایسا ایک شگوفہ ہوا کی زد پر ہے منائیں خیر کہو ساحلوں سے آج کی رات سبک خرام سا دریا ہوا کی زد پر ہے وفور رنج تمنا سے ...