ایک حرف مدعا تھا داستاں کیسے ہوا
ایک حرف مدعا تھا داستاں کیسے ہوا
ریگ کا یہ سلسلہ آب رواں کیسے ہوا
وہ ابھی ہم راہ تھا اس زندگی کے دشت میں
عمر بھر کا ساتھ پل میں رائیگاں کیسے ہوا
آشنائی میں وہ چہرہ صورت خورشید تھا
اجنبی ہو کر وہی چہرہ دھواں کیسے ہوا
دل تو پہلے ہی لہو تھا دشنۂ ایام سے
تجھ سے یہ وار ستم اے مہرباں کیسے ہوا
ہو گئی شاید خبر اس کو فضا میں زہر کی
تازہ دم طائر وگرنہ نیم جاں کیسے ہوا