احمد عظیم کی غزل

    اگا ویرانیوں کا اک شجر آہستہ آہستہ

    اگا ویرانیوں کا اک شجر آہستہ آہستہ شکستہ ہو گئے دیوار و در آہستہ آہستہ کہاں جاتا ہے یہ سیل روان عمر گم گشتہ بہے جاتے ہیں روز و شب کدھر آہستہ آہستہ مرے دل کے خرابے کو کبھی آباد کر ایسے مری جاں کے بیاباں سے گزر آہستہ آہستہ ہوئے ہم دونوں خاکستر دھواں اٹھا نہ آنچ آئی ہوئی کیونکر ...

    مزید پڑھیے

    خلاف تھا نہ زمانہ نہ وقت ایسا تھا

    خلاف تھا نہ زمانہ نہ وقت ایسا تھا جو سوچیے تو یہی ہے نا بخت ایسا تھا بہار رت میں بھی شاخوں کے ہاتھ خالی تھے کھلے نہ پھول کہ موسم ہی سخت ایسا تھا دئے ہیں زخم کچھ ایسے کہ بھر سکیں نہ کبھی یہ اور بات کہ وہ گل بدست ایسا تھا شعاع مہر ہی آئی نہ چاندنی اتری میں کیا کہوں کہ مرے دل کا دشت ...

    مزید پڑھیے

    اب نہ صحرا ہے نہ دریا باقی

    اب نہ صحرا ہے نہ دریا باقی رہ گئی چشم تماشا باقی ان ہواؤں نے نہ چھوڑا اب کے شاخ پر ایک بھی پتا باقی چھن گیا زعم گل افشانیٔ لب رہ گیا ہونٹ پہ نوحہ باقی لوٹ جانے کے لیے دشت امید اب رہا کوئی نہ رستہ باقی

    مزید پڑھیے

    مثال برگ شکستہ ہوا کی زد پر ہے

    مثال برگ شکستہ ہوا کی زد پر ہے کوئی چراغ اکیلا ہوا کی زد پر ہے امان ڈھونڈ رہا ہے کھلا ہوا پانی محبتوں کا جزیرہ ہوا کی زد پر ہے کراہتی ہیں کسی کے فراق میں شامیں دل ایسا ایک شگوفہ ہوا کی زد پر ہے منائیں خیر کہو ساحلوں سے آج کی رات سبک خرام سا دریا ہوا کی زد پر ہے وفور رنج تمنا سے ...

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں پہ تبسم کا لبادہ تو نہیں تھا

    ہونٹوں پہ تبسم کا لبادہ تو نہیں تھا اے دل سم اندوہ زیادہ تو نہیں تھا اک رنج تمنا سے بہت سرخ تھیں آنکھیں صد شکر خدا نشۂ بادہ تو نہیں تھا آئے تھے ترے پاس گھڑی بھر کے لیے ہم تا عمر ٹھہرنے کا ارادہ تو نہیں تھا آسان تو پہلے بھی نہیں تھی یہ رہ دل مشکل بھی مگر اتنا یہ جادہ تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بھٹکتے پھرتے ہیں شہر وفا سے نکلے ہوئے

    بھٹکتے پھرتے ہیں شہر وفا سے نکلے ہوئے بہت ملول ہیں کوئے وفا سے نکلے ہوئے طلسم آب ثبات گلاب عکس چراغ تمام رنگ ہیں تیری قبا سے نکلے ہوئے بلائیں پھرتی ہیں خالی مکان میں شاید پڑے ہیں دور دریچے ہوا سے نکلے ہوئے نوا میں کرب وہی دل کی وحشتیں بھی وہی گو ایک عمر ہوئی ہے بلا سے نکلے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2