سبزہ ہوا سے اولیں برسات میں کھلا

سبزہ ہوا سے اولیں برسات میں کھلا
وہ شخص مجھ سے پہلی ملاقات میں کھلا


روح و دل و بدن کے تقاضے سراب تھے
یہ بھی عذاب کشمکش ذات میں کھلا


سارے بدن پہ زخم نمایاں تھے دن چڑھے
شب بھر رہا تھا کوئی میری گھات میں کھلا


مٹنے تھے سارے رنگ دھنک کے نگاہ سے
تحریر یہ بھی دکھ تھا مرے ہات میں کھلا


کیسا وہ دوست تھا کہ کھلی دشمنی بھی کی
خنجر چھپا کے رکھ دیا سوغات میں کھلا


آئے تو نا مراد نہ جائے ہوائے غم
دروازہ ہم نے چھوڑ دیا رات میں کھلا