Ahmad Ameer Pasha

احمد امیر پاشا

احمد امیر پاشا کی غزل

    وقت رکھتا ہے جو سنبھال کے لوگ

    وقت رکھتا ہے جو سنبھال کے لوگ ڈھونڈ کر لا وہی کمال کے لوگ تو نے دیکھا جنوں کے میلے میں کتنے شیدائی تھے دھمال کے لوگ کاش مر جائے تو عروج میں ہی منتظر ہیں ترے زوال کے لوگ مر گئے آپ گھپ اندھیرے میں چاند تیری طرف اچھال کے لوگ یاد کی خشک جھیل میں اکثر بیٹھے رہتے ہیں پاؤں ڈال کے ...

    مزید پڑھیے

    محبت کو ریا کی قید سے آزاد کرنا ہے

    محبت کو ریا کی قید سے آزاد کرنا ہے ہمیں پھر آرزؤں کا نگر آباد کرنا ہے شکست فاش دینی ہے من و تو کے رویوں کو مراسم کی بحالی کا ہنر ایجاد کرنا ہے یہ کیا جبر تعلق ہے کہ پھر تیرے حوالے سے کسی کو بھول جانا ہے کسی کو یاد رکھنا ہے گزشتہ عہد میں بھی جرم تھا یہ کار حق گوئی ہماری نسل کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    زخم کو مات کیوں نہیں کرتے

    زخم کو مات کیوں نہیں کرتے درد خیرات کیوں نہیں کرتے راستے سائیں سائیں کرتے ہیں راستے بات کیوں نہیں کرتے پیار کرتے ہو پاگلوں کی طرح حسب اوقات کیوں نہیں کرتے الٹی سیدھی وضاحتیں کیا ہیں سوچ کر بات کیوں نہیں کرتے اب ملاقات کرنا آساں ہے اب ملاقات کیوں نہیں کرتے میں تمہیں جیتنے ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری تشنہ نگاہی کا احترام کریں

    تمہاری تشنہ نگاہی کا احترام کریں فرات دشت تمنا تمہارے نام کریں یہ ہجر ان کو ملا ہے انہی کی خواہش پر اب اہل درد یہ جینے کا اہتمام کریں تمہاری بزم میں کچھ بھی سمجھ نہیں آتا کسے اشارہ کریں اور کسے سلام کریں بہت ضروری ہے یہ دھوپ ٹالنے کے لئے شجر لگا کے ترے فلسفے کو عام ...

    مزید پڑھیے

    زرد چہروں پہ شادمانی دے

    زرد چہروں پہ شادمانی دے حرف بے نام کو کہانی دے ریزہ ریزہ بکھرتا جاتا ہوں مجھ کو میری کوئی نشانی دے خوف ڈس جائے گا مکینوں کو لفظ تریاک کو معانی دے اے شراب طہور کے مالک پیاسے لوگوں کو سادہ پانی دے ساری بستی کو مت جلا مولا بجلیوں کو مری نشانی دے جن کو ہجرت نے مار ڈالا ہے ان کو ...

    مزید پڑھیے

    ایک عالم پہ بار ہیں ہم لوگ

    ایک عالم پہ بار ہیں ہم لوگ عادتاً سوگوار ہیں ہم لوگ گردش پا جنوں بڑھاتی ہے سنگ رہ کی پکار ہیں ہم لوگ پچھلی سب رنجشوں کو بھول بھی جا اب ترے غم گسار ہیں ہم لوگ جانتے ہیں ہنر محبت کا اہل دل میں شمار ہیں ہم لوگ اب ہمیں لوگ ہنس کے ملتے ہیں اب بہت سازگار ہیں ہم لوگ ہم نے مفہوم کو ...

    مزید پڑھیے

    میزان واقعات میں تولا نہیں گیا

    میزان واقعات میں تولا نہیں گیا اتنا وہ نا سپاس تھا لکھا نہیں گیا خوشبو کی آرزو میں سزا قید کی ہوئی صحرا اٹھا کے لائے تو پوچھا نہیں گیا یوں بھی میں اپنے بارے میں کچھ لکھ نہیں سکا لفظوں کا شور ایسا تھا سوچا نہیں گیا دونوں کو فرط شوق نے لب بستہ کر دیا وہ چپ رہا تو ہم سے بھی بولا ...

    مزید پڑھیے

    خامشی میں ہی لا جواب نہ تھا

    خامشی میں ہی لا جواب نہ تھا مسکراہٹ کا بھی حساب نہ تھا میں اسے حرف حرف پڑھتا گیا وہ اگرچہ کھلی کتاب نہ تھا ایک مدت سے سو رہے ہیں لوگ پھر بھی آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھا جھیل میں رات بھر تھا کیا رقصاں تیرا پیکر تو زیر آب نہ تھا مرنے والوں کی تھی جزا کی وعید جینے والوں کا احتساب ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کچھ مسئلہ ہم کو گھروں کا

    نہیں کچھ مسئلہ ہم کو گھروں کا بہت دشوار ہے بسنا دلوں کا اسے کہنا مجھے ایجاد کر لے مداوا ہوں میں اس کے سب دکھوں کا تمہارے جال لے کر اڑ رہا ہوں کرشمہ ہے مرے ٹوٹے پروں کا تمہارے بعد بھی تنہا نہیں ہوں لگا ہے ایک میلہ رتجگوں کا تمہاری آنکھ کا موتی ہے نادر ہمارا دل بھی تاجر ہے نگوں ...

    مزید پڑھیے

    حالات مرے دل کو لگانے نہیں دیتے

    حالات مرے دل کو لگانے نہیں دیتے آنکھوں میں ترے خواب سجانے نہیں دیتے ظلمت کے پجاری تو بہت تنگ نظر ہیں جشن شب تاریک منانے نہیں دیتے آنکھوں پہ تو بالکل ہی کوئی بس نہیں چلتا ہم خود کو تری بزم میں جانے نہیں دیتے جنت کی دعائیں مجھے دیتے ہیں سبھی لوگ اس عہد میں جینے کے بہانے نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2