میزان واقعات میں تولا نہیں گیا

میزان واقعات میں تولا نہیں گیا
اتنا وہ نا سپاس تھا لکھا نہیں گیا


خوشبو کی آرزو میں سزا قید کی ہوئی
صحرا اٹھا کے لائے تو پوچھا نہیں گیا


یوں بھی میں اپنے بارے میں کچھ لکھ نہیں سکا
لفظوں کا شور ایسا تھا سوچا نہیں گیا


دونوں کو فرط شوق نے لب بستہ کر دیا
وہ چپ رہا تو ہم سے بھی بولا نہیں گیا


قرض فراق میں نے مکمل چکا دیا
لیکن مرے حساب سے کاٹا نہیں گیا


کیسے بھلا فسانے میں سچ کی تلاش ہو
لفظوں کا ہیر پھیر ہی پکڑا نہیں گیا


ایسے سفر نصیب ہیں پشتوں سے ہم امیرؔ
اب تک ہمارے پاؤں کا چھالا نہیں گیا