حالات مرے دل کو لگانے نہیں دیتے
حالات مرے دل کو لگانے نہیں دیتے
آنکھوں میں ترے خواب سجانے نہیں دیتے
ظلمت کے پجاری تو بہت تنگ نظر ہیں
جشن شب تاریک منانے نہیں دیتے
آنکھوں پہ تو بالکل ہی کوئی بس نہیں چلتا
ہم خود کو تری بزم میں جانے نہیں دیتے
جنت کی دعائیں مجھے دیتے ہیں سبھی لوگ
اس عہد میں جینے کے بہانے نہیں دیتے
نفرت کی روایات کے پابند ہیں لہجے
روٹھے ہوئے لوگوں کو منانے نہیں دیتے
کچھ خواب مری ذات سے بڑھ کر بھی تو ہیں جو
پھر دل کو تری آس لگانے نہیں دیتے
سوکھے ہوئے پھول اور ترے لمس کی خوشبو
صدمہ ترے جانے کا بھلانے نہیں دیتے
گویائی ہے پابند سلاسل کہ امیرؔ اب
صحرا میں بھی آواز لگانے نہیں دیتے