زرد چہروں پہ شادمانی دے

زرد چہروں پہ شادمانی دے
حرف بے نام کو کہانی دے


ریزہ ریزہ بکھرتا جاتا ہوں
مجھ کو میری کوئی نشانی دے


خوف ڈس جائے گا مکینوں کو
لفظ تریاک کو معانی دے


اے شراب طہور کے مالک
پیاسے لوگوں کو سادہ پانی دے


ساری بستی کو مت جلا مولا
بجلیوں کو مری نشانی دے


جن کو ہجرت نے مار ڈالا ہے
ان کو جینے کا اذن ثانی دے