خامشی میں ہی لا جواب نہ تھا
خامشی میں ہی لا جواب نہ تھا
مسکراہٹ کا بھی حساب نہ تھا
میں اسے حرف حرف پڑھتا گیا
وہ اگرچہ کھلی کتاب نہ تھا
ایک مدت سے سو رہے ہیں لوگ
پھر بھی آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھا
جھیل میں رات بھر تھا کیا رقصاں
تیرا پیکر تو زیر آب نہ تھا
مرنے والوں کی تھی جزا کی وعید
جینے والوں کا احتساب نہ تھا
ظرف کے امتحاں میں اب کی بار
ایک بھی شخص کامیاب نہ تھا
یوں تو بے حد سخی تھا دل کا امیرؔ
وہ مگر صاحب نصاب نہ تھا