Ahmad Adil

احمد عادل

احمد عادل کی غزل

    مے کدہ سا بنا دیا گھر میں

    مے کدہ سا بنا دیا گھر میں اور ساقی بٹھا دیا گھر میں اس کی ضد تھی کہ اہتمام کروں میں نے خود کو بچھا دیا گھر میں تیرے پہرے جگہ جگہ پا کر خود کو قیدی بنا دیا گھر میں تیری قربت تھی آگ تھی کیا تھی میرا سب کچھ جلا دیا گھر میں ڈر کے اپنے ہی سائے سے میں نے ہر دیے کو بجھا دیا گھر میں خود ...

    مزید پڑھیے

    مصروف رہ گزر پہ چلا جا رہا تھا میں

    مصروف رہ گزر پہ چلا جا رہا تھا میں پھر کیوں لگا کہ سب سے جدا جا رہا تھا میں تعمیر ذات ہی میں لگی زندگی تمام خالق بنا رہا تھا بنا جا رہا تھا میں حاصل تھیں جن کو راحتیں وہ بھی فنا ہوئے کیوں اپنی مفلسی سے ڈرا جا رہا تھا میں دریائے زیست کی یہی منزل تھی آخری اک بحر بیکراں میں گرا جا ...

    مزید پڑھیے

    بس ہر اک رات یہی جرم کیا ہے میں نے

    بس ہر اک رات یہی جرم کیا ہے میں نے لا کے خوابوں میں تجھے دیکھ لیا ہے میں نے ہر برس زیست کا لمحہ سا لگا ہے لیکن بعض لمحوں میں تو صدیوں کو جیا ہے میں نے چھوٹے جاتے ہیں سبھی اہل خرابات جنوں کیا عجب عقل سے سودا یہ کیا ہے میں نے ساغر مرگ کو سقراط نے پی کر یہ کہا زندگی تیرے لئے زہر پیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ دیا خوں سے جلا پھر بھی جلا ہے تو سہی

    یہ دیا خوں سے جلا پھر بھی جلا ہے تو سہی لاکھ رسماً ہی ملا مجھ سے ملا ہے تو سہی ان کہی بات سمجھ لو تو بڑی بات ہے یہ میری خاموش نوائی میں صدا ہے تو سہی ڈگمگاتا مجھے دیکھے تو سہارا دے کوئی یہ جو لغزش ہے تو لغزش کا مزا ہے تو سہی بھیگی آنکھیں یہ بتاتی ہیں کہ سن کر مرا حال کچھ نہ کچھ تجھ ...

    مزید پڑھیے

    کیا فسانے میں مرا نام کہیں ہوتا ہے

    کیا فسانے میں مرا نام کہیں ہوتا ہے تیرے ہونٹوں پہ نہیں ہے تو نہیں ہوتا ہے تو جسے ڈھونڈھتا پھرتا ہے زمانے بھر میں اپنے دل میں تو ذرا جھانک وہیں ہوتا ہے کتنے سادہ ہیں یہ کشتی کے مسافر جن کو ناخداؤں کی خدائی پہ یقیں ہوتا ہے توڑ کر بند قبا چاک گریباں ہو کر رنگ وحشت کا مری اور حسیں ...

    مزید پڑھیے

    الجھن میں ہست و بود کی یوں مبتلا ہوں میں

    الجھن میں ہست و بود کی یوں مبتلا ہوں میں خود اپنا عکس ہوں کہ ترا آئنہ ہوں میں مجھ کو کیا ہے لائق سجدہ اسی لئے اجزائے کائنات میں سب سے جدا ہوں میں تو ایک ہے مگر ہیں ترے ان گنت مجاز ہر آئنے میں تیرے نمایاں ہوا ہوں میں تشنہ لبی میں ضبط ہو اور وہ بھی اس گھڑی جب اتفاق سے لب دریا کھڑا ...

    مزید پڑھیے

    ازل سے بے ثباتی کا گلہ تھا

    ازل سے بے ثباتی کا گلہ تھا مگر انسان خود کم حوصلہ تھا جسے سمجھے سمندر کی روانی سبیل زندگی کا بلبلہ تھا عجب سی تھی مسافت تیرگی کی چلا تھا گر پڑا تھا پھر چلا تھا ہر اک لمحہ رفاقت کا ہماری دھنک کے سات رنگوں سے سجا تھا توازن تھا ضروری زندگی میں تلون کا مگر اپنا مزا تھا کھڑا تھا ...

    مزید پڑھیے

    یہ مے کشی کا سبق ہے نئے نصاب کے ساتھ

    یہ مے کشی کا سبق ہے نئے نصاب کے ساتھ کہ خون دل ہمیں پینا ہے اب شراب کے ساتھ بس اس یقین پہ ہوتی ہیں لغزشیں اکثر کہ رحمتوں کا بھی داتا ہے تو عذاب کے ساتھ یہ قربتوں کا اشارہ ہے یا جدائی کا جو زرد پھول ملا ہے ترے جواب کے ساتھ ذرا وہ ساتھ بھی چلتے ہیں لوٹ جاتے ہیں حجاب ٹوٹ رہے ہیں مگر ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنے زخم سبھی کو دکھا نہیں سکتے

    ہم اپنے زخم سبھی کو دکھا نہیں سکتے جو شکوہ تم سے ہے سب کو سنا نہیں سکتے مرے خیال کی گہرائی کو ذرا سمجھو کہ صرف لفظ تو مطلب بتا نہیں سکتے ملال یہ ہے کہ ساقی تو بن گئے صاحب شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے عجب ہے پھول کی فطرت اسے مسل کر تم مہکتے ہاتھوں کی خوشبو چھپا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دستور تھا جو غم کا پرانا بدل گیا

    دستور تھا جو غم کا پرانا بدل گیا سنبھلے نہ تھے ابھی کہ زمانہ بدل گیا شکوہ نہیں کہ ساغر و مینا بدل گئے ٹوٹا خمار کیف شبانہ بدل گیا جو باب تھے اہم ابھی ہونے تھے وہ رقم پر کیا کہ لکھتے لکھتے فسانہ بدل گیا مشق سخن وہی ہے مشقت بھی ہے وہی کیسے کروں یقین زمانہ بدل گیا نغمہ سرا ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2