ہم اپنے زخم سبھی کو دکھا نہیں سکتے
ہم اپنے زخم سبھی کو دکھا نہیں سکتے
جو شکوہ تم سے ہے سب کو سنا نہیں سکتے
مرے خیال کی گہرائی کو ذرا سمجھو
کہ صرف لفظ تو مطلب بتا نہیں سکتے
ملال یہ ہے کہ ساقی تو بن گئے صاحب
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے
عجب ہے پھول کی فطرت اسے مسل کر تم
مہکتے ہاتھوں کی خوشبو چھپا نہیں سکتے
لکھا گیا جو مقدر میں حرف آخر ہے
تم اپنی مرضی سے اس کو مٹا نہیں سکتے
ہزاروں حیلے بہانے تراش لو پھر بھی
تم اپنے چہرے کی خفت چھپا نہیں سکتے
اب ایک ہم ہیں کہ صدیاں گزار دیں عادلؔ
اور ایک وہ ہیں کہ لمحہ بتا نہیں سکتے