مصروف رہ گزر پہ چلا جا رہا تھا میں
مصروف رہ گزر پہ چلا جا رہا تھا میں
پھر کیوں لگا کہ سب سے جدا جا رہا تھا میں
تعمیر ذات ہی میں لگی زندگی تمام
خالق بنا رہا تھا بنا جا رہا تھا میں
حاصل تھیں جن کو راحتیں وہ بھی فنا ہوئے
کیوں اپنی مفلسی سے ڈرا جا رہا تھا میں
دریائے زیست کی یہی منزل تھی آخری
اک بحر بیکراں میں گرا جا رہا تھا میں
سمجھا تھا آئنے میں مرا عکس ہی نہیں
ظاہر تھا اور سب سے چھپا جا رہا تھا میں
پہلے تو کوئے یار کی پھر دار کی طلب
دلدل میں خواہشوں کی دھنسا جا رہا تھا میں
میں گرد راہ تھا مگر اعجاز دیکھیے
ہر کارواں کے ساتھ اڑا جا رہا تھا میں
رکنے میں ڈر یہ تھا کہ توازن بگڑ نہ جائے
عادلؔ اسی گماں میں چلا جا رہا تھا میں