یہ دیا خوں سے جلا پھر بھی جلا ہے تو سہی

یہ دیا خوں سے جلا پھر بھی جلا ہے تو سہی
لاکھ رسماً ہی ملا مجھ سے ملا ہے تو سہی


ان کہی بات سمجھ لو تو بڑی بات ہے یہ
میری خاموش نوائی میں صدا ہے تو سہی


ڈگمگاتا مجھے دیکھے تو سہارا دے کوئی
یہ جو لغزش ہے تو لغزش کا مزا ہے تو سہی


بھیگی آنکھیں یہ بتاتی ہیں کہ سن کر مرا حال
کچھ نہ کچھ تجھ کو بھی احساس ہوا ہے تو سہی


کہیں مغرور کو بدمست مگر سچ یہ ہے
انکساری میں بھی اپنا ہی نشہ ہے تو سہی


زندگی بھر مری ہستی میں رچا ہو جیسے
تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے تو سہی


کاوش زیست ہے کیا اپنی ہی ہستی کی تلاش
خود کو پا لینا ہی انساں کا صلہ ہے تو سہی


ہے جو آزردگی اس کی دم رخصت عادلؔ
تجھ کو اندازۂ تجدید وفا ہے تو سہی