ازل سے بے ثباتی کا گلہ تھا
ازل سے بے ثباتی کا گلہ تھا
مگر انسان خود کم حوصلہ تھا
جسے سمجھے سمندر کی روانی
سبیل زندگی کا بلبلہ تھا
عجب سی تھی مسافت تیرگی کی
چلا تھا گر پڑا تھا پھر چلا تھا
ہر اک لمحہ رفاقت کا ہماری
دھنک کے سات رنگوں سے سجا تھا
توازن تھا ضروری زندگی میں
تلون کا مگر اپنا مزا تھا
کھڑا تھا میں پشیماں پھر وہیں پر
جہاں سے لغزشوں کا سلسلہ تھا
کبھی سوچا بھی عادلؔ کیوں ملا سب
ہوا حاصل وہی جو دے چکا تھا