دستور تھا جو غم کا پرانا بدل گیا

دستور تھا جو غم کا پرانا بدل گیا
سنبھلے نہ تھے ابھی کہ زمانہ بدل گیا


شکوہ نہیں کہ ساغر و مینا بدل گئے
ٹوٹا خمار کیف شبانہ بدل گیا


جو باب تھے اہم ابھی ہونے تھے وہ رقم
پر کیا کہ لکھتے لکھتے فسانہ بدل گیا


مشق سخن وہی ہے مشقت بھی ہے وہی
کیسے کروں یقین زمانہ بدل گیا


نغمہ سرا ہیں ہم تو اسی سر میں لے میں ہیں
پر لوگ کہہ رہے ہیں ترانہ بدل گیا


قائم پرانے حیلوں بہانوں پہ آج بھی
سمجھے تھے اس کا طرز بہانہ بدل گیا


میری تھی کیا مجال حقیقت بدل سکوں
خاکے تہ خیال بنانا بدل گیا


عادلؔ تجھے یقیں نہیں آیا نہ آئے گا
تیرا وہ یار غار پرانا بدل گیا