بس ہر اک رات یہی جرم کیا ہے میں نے

بس ہر اک رات یہی جرم کیا ہے میں نے
لا کے خوابوں میں تجھے دیکھ لیا ہے میں نے


ہر برس زیست کا لمحہ سا لگا ہے لیکن
بعض لمحوں میں تو صدیوں کو جیا ہے میں نے


چھوٹے جاتے ہیں سبھی اہل خرابات جنوں
کیا عجب عقل سے سودا یہ کیا ہے میں نے


ساغر مرگ کو سقراط نے پی کر یہ کہا
زندگی تیرے لئے زہر پیا ہے میں نے


اپنے ہر خواب کی تعبیر کو پانے کے لئے
اک سمندر تھا جسے پار کیا ہے میں نے


تم نہیں جانتے مقتل سے ڈرانے والو
جاں کا نذرانہ کئی بار دیا ہے میں نے


کیسے ممکن ہے کہ میں تجھ سے تری بات کروں
تیرے کہنے پہ تو ہونٹوں کو سیا ہے میں نے


مے کشی میں بھی کئی دور گزارے عادلؔ
کبھی چلو کبھی ساغر سے پیا ہے میں نے