کیا فسانے میں مرا نام کہیں ہوتا ہے
کیا فسانے میں مرا نام کہیں ہوتا ہے
تیرے ہونٹوں پہ نہیں ہے تو نہیں ہوتا ہے
تو جسے ڈھونڈھتا پھرتا ہے زمانے بھر میں
اپنے دل میں تو ذرا جھانک وہیں ہوتا ہے
کتنے سادہ ہیں یہ کشتی کے مسافر جن کو
ناخداؤں کی خدائی پہ یقیں ہوتا ہے
توڑ کر بند قبا چاک گریباں ہو کر
رنگ وحشت کا مری اور حسیں ہوتا ہے
وہ جتانے کو یہ آتا ہے کہ میں آتا ہوں
ورنہ دھیان اس کا سدا اور کہیں ہوتا ہے
جبکہ باقی ہے بہت اس کی بلندی کا سفر
ذکر انساں کا سر عرش بریں ہوتا ہے
مت کہو اس کو زیاں جس سے خوشی ملتی ہو
وقت ایسے کبھی ضائع تو نہیں ہوتا ہے
مے کدہ میں ہی ملے گا تجھے تیرا عادلؔ
اس کو جانا ہے کدھر روز وہیں ہوتا ہے