Afroz Alam

افروز عالم

افروز عالم کی نظم

    دوام

    میں تمہارے فیصلے کا حاصل ہوں تم مجھ سے بے وجہ الجھتے ہو میں نے جو تمہیں کامیابیاں دیں خوشیاں عطا کیں اسے کیوں نہیں شمار کرتے تمہاری حرکتوں سے در آنے والی زندگی بھر کی ناکامیاں تلخیوں کی صورت جب تمہارے رگ و پے میں پیوست ہو چکی ہیں تو تم مجھ سے الجھ رہے ہو تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ یوں

    میرے اور اس کے درمیاں رکھے ہوئے گلدستے میں گلابوں کا رنگ گہرا ہوتا جا رہا تھا میں سوچ میں گم تھا کہ دفعتاً ہوا کے جھونکے نے چونکا دیا مجھ کو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے بیٹھا ہوا حسن کا پیکر اپنی نرم گرم سانسوں سے ان کو سینچ رہا تھا

    مزید پڑھیے

    امید

    چشم حیرت میں زخموں اور لاشوں کا جو سمندر ٹھہر ٹھہر کر ڈرا رہا ہے میں اس کے ساحل پہ بیٹھے بیٹھے آنے والے لوگوں کی خاطر دو چار نظمیں لکھ رہا ہوں اگر میں ایسا نہ کروں تو مجھے بتاؤ کہ کیا کروں میں عہد حاضر کے خشک دامن سرخ لاشوں سے بھر گئے ہیں اگر کچھ اس کے سوا بچا ہے تو بس مشینوں کا شور ...

    مزید پڑھیے

    اغتصاب (ریپ)

    شیخ فرماتے ہیں ڈارون جھوٹا تھا انسان کب بندر تھا انسان تو ایسا کبھی بھی نہیں تھا شیخ فرماتے ہیں لٹکنا جھپٹنا کبھی منہ چڑھانا یہ عادت ہماری بھی کبھی نہیں تھی مری عادتوں میں یہ سب نہیں تھے کتابیں تو کہتی ہیں ہم بندر نہیں تھے ماضی کے جب بھی جھروکے سے دیکھو تاریخ کے جب بھی اوراق ...

    مزید پڑھیے

    جد و جہد

    سمے میری شخصیت سے خود اعتمادی کی پرت اس طرح اتار رہا ہے جیسے کوئی خانساماں پیاز کے چھلکے اتار رہا ہو کل آج اور کل کے صحراؤں سے بگولوں کے ساتھ ان دیکھا سا کوئی وجود نکلتا ہے اور میری محنتوں پہ شب خون مار دیتا ہے شاید اسے پتہ نہیں کہ انسان جو کہ ہوس کا پجاری ہے فطرتاً ایک جواری ...

    مزید پڑھیے

    بے قراری

    رفتہ رفتہ اشک آنکھوں سے رواں ہونے لگے دل لگا کر دور مجھ سے جان جاں ہونے لگے آنکھ ان سے جب ملی تو مل گیا دل کو قرار چاند تاروں میں کیا کرتا تھا میں ان کا شمار دل کی دھڑکن میری الجھن بے زباں ہونے لگے رفتہ رفتہ اشک آنکھوں سے رواں ہونے لگے وہ سنہرا حرف تھا الجھی ہوئی تحریر کا میں مصور ...

    مزید پڑھیے

    ظلمات

    جس طرح کسی مفلس کی تقدیر کا ستارہ بہت دور کہیں تاریک راہوں میں بھٹک کر دم توڑ رہا ہو شام ہوتے ہی اس دیار کا چپہ چپہ گھپ اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے ایسے میں سماعت سے سرگوشیاں کرتے ہوئے سناٹے اندھیروں کو کوستے ہوئے لمحات دور سے آتی ہوئی کسی بے بس کی پکار جب احساس سے ٹکراتی ہے تو ...

    مزید پڑھیے

    سکون تر

    وہ کہ جس کے دم سے ہر ایک ذرے کے رگ جاں میں حرارت بھرا لہو رواں تھا وہ جو تا دم حیات سرسر کو صبا کہنے سے گریزاں تھا جس کے پر سوز ترنم سے حسین وادیوں میں لفظوں کی خوشبو بکھر رہی تھی وہ کہ جس کے لفظوں کی حرارت سے زنداں کی سلاخیں پگھل رہی تھیں شفق کی رنگت بدل رہی تھی وہ اک جیالا مجاہد ...

    مزید پڑھیے

    یاد

    اے صبا چاندنی سے کہہ دینا یاد اسے صبح و شام کرتے ہیں اب کہاں ہے ہمارے دل کا سکوں غم میں ڈوبے کلام کرتے ہیں دل بہت بے قرار رہتا ہے ٹھہر جائے کبھی کبھی دھڑکن یاد آتی ہے اس کی شام و سحر ہم کو بھاتا کہاں ہے اب ساون اشک آنکھوں کے اے مرے دلبر دل کے حالات عام کرتے ہیں لٹ گئے زندگی کے سب ...

    مزید پڑھیے

    گلوبلائزیشن

    کئی صدی کی مشقت پہ فکر مند ہوئے خیال یار فضاؤں کے درد مند ہوئے شعور فکر سے سرگوشیوں میں کہنے لگے ابھی تو قدرتی وسائل کی شناسائی ہے ابھی تو لب پہ کئی نقرئی صدائیں ہیں ابھی تو آدمی کو آدمی پہچانتا ہے ابھی تو موسموں کی رنگتیں نہیں بدلیں شعور فکر سے سرگوشیوں میں کہنے لگے ابھی تو شمس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3