گلوبلائزیشن

کئی صدی کی مشقت پہ فکر مند ہوئے
خیال یار فضاؤں کے درد مند ہوئے
شعور فکر سے سرگوشیوں میں کہنے لگے
ابھی تو قدرتی وسائل کی شناسائی ہے
ابھی تو لب پہ کئی نقرئی صدائیں ہیں
ابھی تو آدمی کو آدمی پہچانتا ہے
ابھی تو موسموں کی رنگتیں نہیں بدلیں
شعور فکر سے سرگوشیوں میں کہنے لگے
ابھی تو شمس کے ماتھے پہ کوئی بل بھی نہیں
ابھی تو چاند کی ہیئت بھی ہو بہ ہو ہے وہی
ابھی تو اہل فن کے ہاتھ بھی سلامت ہیں
ابھی تو ذہن میں خوش حال سوچ رقصاں ہیں
شعور فکر سے سرگوشیوں میں کہنے لگے
ابھی بھی لب پہ مسکراہٹوں کی آس لیے
بظاہر دور نو کے نغمے گنگناتے ہوئے
ابھی بھی ساحل دریا پہ زلف کھولے ہوئے
مرے خیال کی سرگوشیاں یہ کہتی ہیں
کئی صدی کی مشقت پہ ضرب کر دے گا
نیا سویرا ہمیں شرمسار کر دے گا