امید
چشم حیرت میں
زخموں اور لاشوں کا جو سمندر
ٹھہر ٹھہر کر ڈرا رہا ہے
میں اس کے ساحل پہ بیٹھے بیٹھے آنے والے لوگوں کی خاطر
دو چار نظمیں لکھ رہا ہوں
اگر میں ایسا نہ کروں تو
مجھے بتاؤ کہ کیا کروں میں
عہد حاضر کے خشک دامن
سرخ لاشوں سے بھر گئے ہیں
اگر کچھ اس کے سوا بچا ہے تو بس مشینوں کا شور سا ہے
فضا میں دھواں گھلا ہوا ہے
میں ان فضاؤں میں گھٹ رہا ہوں
دو چار نظمیں لکھ رہا ہوں
اگر میں ایسا نہ کروں تو
مجھے بتاؤ کہ کیا کروں میں
میرے عزیزو میرے رفیقو
آؤ مل کر جتن کریں یہ
امید کی لو بڑھائے رکھیں
حسین موسموں کی آہٹوں پر
کان اپنا لگائے رکھیں
افق پہ نظریں جمائے رکھیں
امید رکھنا
یہاں سے ایک دن نیا سویرا
نئے اجالوں کے ساتھ ہو کر
نئی امنگوں کے ہاتھ تھامے
موسموں کو بدل ہی دے گا
کان اپنا لگائے
افق پہ نظریں جمائے رکھنا