شراب پی کے بھی مست شراب ہو نہ سکا
شراب پی کے بھی مست شراب ہو نہ سکا
ترا خراب محبت خراب ہو نہ سکا
اسی پہ ختم ہیں ناکامیاں زمانہ کی
تری جناب میں جو کامیاب ہو نہ سکا
تری عطا کے تصدق ترے کرم کے نثار
گناہ گار تھا لیکن عذاب ہو نہ سکا
وفور حسن کی وہ شوخیاں معاذ اللہ
شباب تابع عہد شباب ہو نہ سکا
خراب عشق ترا ہو کے ساری دنیا میں
کسی کا بھی دل خانہ خراب ہو نہ سکا
اٹھی نہ عرض تمنا پہ خشمگیں ہو کر
تری نگاہ کا مجھ پر عتاب ہو نہ سکا
ہزار رنگ تھے لیکن تھا ایک ہی جلوہ
کمال حسن کا تیرے جواب ہو نہ سکا
دلیل پستی اوج فلک ہے یہ افقرؔ
کہ خاک بوس در بو تراب ہو نہ سکا