حجاب جسم و جاں میں حسن پنہاں دیکھ لیتے ہیں
حجاب جسم و جاں میں حسن پنہاں دیکھ لیتے ہیں
نظر والے تمہیں تا حد امکاں دیکھ لیتے ہیں
اسیر زلف ہو کر روئے جاناں دیکھ لیتے ہیں
سواد کفر میں بھی نور ایماں دیکھ لیتے ہیں
زمانہ میرا حاصل ہے میں حاصل ہوں زمانہ کا
جو اہل بزم ہیں محفل کا ساماں دیکھ لیتے ہیں
ہمارے ڈوبنے کا واقعہ جب یاد آتا ہے
جو ساحل پر بھی ہیں ساحل کا داماں دیکھ لیتے ہیں
دل اس پر آرزو آسودہ ہو جاتا ہے دنیا سے
کبھی گر منظر گور غریباں دیکھ لیتے ہیں
گزرتے ہیں جناب شیخ جب مے خانہ سے ہو کر
نہیں کہتے زباں سے کچھ مگر ہاں دیکھ لیتے ہیں
ترا ہی جلوہ گو دیر و حرم دونوں میں ہے لیکن
جو اہل دل ہیں فرق کفر و ایماں دیکھ لیتے ہیں
زمیں سے آسماں سے گو کہیں بجلی گرے لیکن
اسیران قفس سوئے گلستاں دیکھ لیتے ہیں
پہنچ جاتے ہیں ہم افقرؔ وہاں ذوق طبیعت سے
جو شایان ادب بزم سخنداں دیکھ لیتے ہیں