آغاز محبت کا تو انجام نہیں ہے

آغاز محبت کا تو انجام نہیں ہے
یہ صبح وہ ہے جس کی کبھی شام نہیں ہے


کیا دیکھتا ہے اپنے سوا دیکھنے والے
آئینۂ دل جلوہ گہ عام نہیں ہے


اللہ ری تقدیر کی ناکامی پیہم
یوں بیٹھا ہوں اب جیسے کوئی کام نہیں ہے


بے وجہ کیا قید اسیروں کو قفس میں
صیاد کے سر پھر بھی تو الزام نہیں ہے


مرنے نہیں دیتی ہے رہائی کی تمنا
دنیا میں مجھے ورنہ کوئی کام نہیں ہے


اب خاک ہو ایمن کے بیاباں میں تجلی
افقرؔ کوئی بے پردہ سر بام نہیں ہے