" افکار اقبال اور اہل پاکستان"  کے عنوان پر طلبہ کے لیے اردو کی بہترین تقریر

" افکار اقبال اور اہل پاکستان"  کے عنوان پر طلبہ کے لیے اردو کی بہترین تقریر

        ذہن  میں  عظمت ِاجدا د  کے  قصے لے کر         اپنے تاریک گھروندوں کے خلامیں کھو جاؤ 
        مر مریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سوجا ؤ         ابر  پا رو ں  پہ چلو  چاند  ستاروں میں اڑو 
                    یہی اجدا د دسے ورثہ میں ملا ہے تم کو 
قابل صد احترام جناب صدر ِمکرم، ذی وقار اساتذہ کرام، حاضرین وسامعین السلام علیکم!
آج اس اہم موقع پر میرا موضوع انتخاب ہے
" افکار اقبال اور اور اہل پاکستان "
        مٹ کے بھی بر قرار رہتے ہیں         کس قدر باثبات ہیں یہ لوگ 
        ان سے تاریخ کے دئیے روشن         قیمتی  حادثات  ہیں  یہ  لوگ 
حاضرین گرامی! ہزاروں سال بہاریں خزاں کا طواف کرتی ہیں تب کہیں جا کر بر گ وبار کا موسم آتا ہے جسم وجاں کا، رگ رگ کا خون چھڑکاجاتاہے تب کہیں جا کر برگ گلاب نکھرتے ہیں صحن میں صباء کرلاتی پھرتی ہے نکہتِ گل رتجگے کا ٹتی ہے تب کہیں جا کر نئے شگوفے کھلتے ہیں کلی پھول بنتی ہے۔
 حاضرین گرامی! 
    بادوباراں باراں کے طوفاں جھیلنے پڑتے ہیں۔ بجلیوں،آندھیوں اور موسمو ں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا پڑتی ہیں تب کہیں جا کر نخل نوزائیدہ چھتنا ور درخت بنتاہے نرگس چمن کی ہزاروں سال کی گریہ وزاری کے بعد کوئی گلِ دیدہ ور ظہور میں آتا ہے۔
    ؎    لونے  جھلسا دیا آندھی نے مسلنا چاہا     کتنے دکھ جھیلے ہیں پودے نے شجر ہونے تک 
یاپھر جیسا کہ ساحر لدھیانوی نے کہا ہے کہ 
؎    ؎    ہزاروں برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں     وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں 
حاضریں گرامی! کسے معلوم تھا کہ سیالکوٹ کے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والا بچہ ایک دن شاعر مشرق بن کرشاعری کے افق پر چمکے گا۔ وقت کے نقشے میں اپنے تخیل کے رنگ بھرے گا بے خواب آنکھوں کو خواب دے کر تعبیر کے راستے پر ڈالے گا بے راستہ قافلے کو رستے کا  تعین دے گا۔اندھیری شب میں روشنی کی کرن بن کر منزلوں کا سراغ دے گا اور آخر ایک دن "مصور پاکستان" بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجائے گا۔ اقبال اور افکار اقبال وہ روشن ستارے ہیں جو اندھیروں میں بھی ہمارے رہبر ہیں 
    ؎     میں اکیلا ہی سفر میں ہوں تو مجھ سے بات کرتے ہیں          اندھیری رات میں روشن ستار ے ساتھ چلتے ہیں 
سامعین گرامی! افسوس صد افسوس مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم سب افکار اقبال کے قاتل ہیں آج ہم تہی دامن وتہی دست ادھورے ہیں اقبال نے ہمیں شاہین بنا نا چاہا ہم کرگسوں سے بدتر ہو چکے ہیں۔ اقبال نے ہمیں خودی سکھائی ہم کشکول اور کا سۂ گدائی تھام چکے ہیں۔ اقبال نے ہمیں اوج ثریا کے خواب دکھائے ہم تحت الثری اور پاتال کو محو سفر ہیں۔اقبال نے ہمیں مشرقیت کا درس دیا آج مغربی ثقافت کا دھواں ہمیں نگل چکا ہے اقبال نے مشینوں کی حکومت کو دل کے لیے موت قرار دیا ہے آج ہم مشینو ں کے ساتھ خودمشین بن چکے ہیں۔اقبال نے ہمیں یکجہتی کا سبق دیا ہے آج ہم فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔
سامعین گرامی!
    آج خدا وندان مکتب شاہین بچوں کو رسم خاکبازی سکھارہے ہیں آج ہماری زبان پر خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ کی بجا ئے انڈین میوزک کی گنگناہٹیں ہیں۔ آج طاؤس ورباب اول ہوچکے ہیں اورشمشیر وسناں میوزیم کی زینت بن چکے ہیں۔ہم سب نے افکار اقبال کو دفنا دیا ہے، انہیں قتل کر دیا ہے اور ہمارے ماتھے پر شرمندگی کا ایک قطرہ بھی نہیں۔
        میرے وطن کے مصور میں تجھ سے نادم ہوں         تیرے شعور کے خاکے گنوا دئیے میں نے 
        میرے  لبوں  پہ  سجا یا  تھا جن کو تونے کبھی           وہ گونجتے ہوئے نغمے بھلا دئیے میں نے 
سامعین گرامی! 
    ہم نے اسی پر بس نہ کیا ہم نے علامہ اقبال کے دو قومی نظریے کو بھی پارہ پارہ کردیا اور 16 دسمبر1971 کو ہمارامشرقی بازو بنگلہ دیش بن گیا۔ اندرا گاندھی کے یہ زہریلے الفاظ سننے سے پہلے ہم زندہ درگور نہ ہوگئے کہ   
                    "    آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے" 
سامعین گرامی! 
    یہ جشن،یہ ہنگامے یہ تقریبات، یہ نغمے، یہ سرمستی، یہ لہجوں کی کھنک،یہ ہنسی،یہ جلترنگ درست ہیں مگر آج کے دن ہمارا فرض بنتا ہے کہ خود کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کر کے اپنا اپنا احتساب کریں کہ کیا ہمیں یوم اقبال منانے کا حق ہے۔
        جو ہم طے کرچکے لمبی مسافت کس لیے کی ہے        میں اکثر سوچتاہوں ہجرت کس لیے کی ہے 
          ہمارے گھر کوہی گھر کے چراغوں نے جلا ڈالا        ہوا نے ہم سے آخر یہ شرارت کس لیے کی ہے
 

متعلقہ عنوانات