افسانہ

افسانہ: ایسا خسارہ جس کا زندگی میں کوئی ازالہ نہیں

زندگی اب رفتہ رفتہ خساروں سے نکل رہی تھی لیکن کوئی بھی منافع ایک خسارے کی تلافی کرنے میں ناکام رہا تھا۔۔۔ آج وہ ماں کی لحد پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کاش جیسے اس روز میری فیس کا نقصان پورا کرنے کے لیے صبح صبح۔۔۔منہ اندھیرے وہ اسے تسلی دینے اتنا فاصلہ طے کر کے پاس پہنچ گئی تھیں۔۔۔بعض خسارے ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ جینا ہی پڑتا ہے۔ایک ایسے ہی خسارے کی کہانی ملاحظہ کیجیے۔

مزید پڑھیے

افسانہ: ایک مسافر کا قصہ جسے بلو مستری سےملا زندگی کا گیان

کوئی بھی انسان معمولی نہیں ہوتا۔۔۔زندگی کا سفر تلخ ضرور ہے لیکن بے مزا نہیں۔ زندگی کے اس سفر میں ہر انسان اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ایک راہ چلتے عام آدمی نے ایک مسافر کو دیا زندگی کا گیان۔۔ بقول اقبال ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔۔۔لیکن ان کے چہروں پر مسکراہٹ کی کوئی قیمت نہیں۔۔۔زندگی انھی کے دم سے سانس لے رہی ہے۔۔۔یومِ مزدور پر ایک خوب صورت کہانی کا مزا لیجیے

مزید پڑھیے

افسانہ: ایک ایسے لکھاری کی کہانی جس سے اس کی کہانی روٹھ گئی تھی

زندگی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔۔۔کوئی کہانی کا حصہ ہے تو کوئی کہانی گو۔۔۔کوئی کہانیاں بُن رہا ہے تو کوئی کہانی کی تلاش میں ہے۔۔۔یہ افسانہ بھی ایک ایسے کہانی کار کی کہانی ہے جو کہانیاں لکھتا لکھتا خود کہانی بن چکا تھا۔

مزید پڑھیے

افسانہ: خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے

رات کے آخری پہر دروازے پر دستک ہوئی۔ اپنے بیٹے کا پیٹ پالنے کی خاطر دوسروں کے گھر  کام کر کے تھکی ماندی پونم اٹھی اور دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولی :  "ضرور یہ بلونت ہوگا" اور دروازہ کھول دیا۔ شراب کے نشے میں دھت بلونت سنگھ دروازہ کھلتے ہی نیچےگر گیا وہ زخمی تھا اورپولیس اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔اس کی بائیں پنڈلی پر گولی لگی تھی۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ ایشر سنگھ بھی جاگ چکا تھا۔ اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کروہ پریشان ہوگیا۔

مزید پڑھیے

افسانہ:" ہاٹ لائن " بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

رات کا وقت۔۔۔ اور رقت میں ڈوبی وہ لرزتی ہوئی صدا ۔۔۔بہزاد کی سماعتوں سے ہوتی ہوئی دل تک پہنچ رہی تھی۔ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب آنسوؤں کی ایک بے قرار موج پلکوں سے فرار ہو کر اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ اذان ختم ہونے پر وہ جیسے اچانک ہوش میں آگیا ہو۔ وہ اپنے ارد گرد ہر چیز کو یوں دیکھنے لگا جیسے سب اس کے لیے نامانوس ہوں۔ اس نے اپنے گال کو چھو کر دیکھا۔۔۔ یہ آنسو۔۔۔ یہ آنکھوں سے بہنے والا پانی بھی اس کے لئے بالکل اجنبی تھا ۔

مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 233