افسانہ:سنت ابراہیمی سے ذاتی نمود ونمائش کے مقابلے تک
سمیرا نے آنکھ سے چھلکتا آنسو پونچھا اور پن کی نب کو ڈائری کے صفحے پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھ سے ایک اور آنسو چھلکا اور ہاتھ کی پشت پر آ گرا۔ آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے اس نے لکھنا شروع کیا۔
ہمارے ہاں بچے اور جوان علاقے بھر میں عید قربان کے نزدیک اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ کون کتنا خوب صورت اور کتنے والا جانور لا رہا ہے۔ اس گھرانے کی دھوم ہوتی ہے جو غیر معمولی ڈیل ڈول والا خوب صورت مہنگا جانور لے آۓ۔ اسی دھوم کی خاطر ہمارے ہاں پیسے والوں میں مہنگا جانور لینے کی دوڑ ہوتی ہے جو سال بھر کسی کو دمڑی نہ دیں۔ ان کی تجوریاں کھلتی ہیں اور خوبصورت جانور چاہے وہ بکرے ہوں ، بیل یا اونٹ، کے دام لگنے لگتے ہیں۔ جتنے اونچے دام اتنی زیادہ دھوم۔ اس سب دھوم میں سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کا جذبہ، جس میں ایثار و قربانی، اطاعت ربانی اور غریب پروری ہوتا ہے، کہیں دب کر رہ جاتا ہے۔ ہر طرف غلغلہ ہوتا ہے: ارے تم نے سنا اس محلے میں چار لاکھ والا بیل آیا ہے، اچھا وہاں تو چھے لاکھ والا آیا ہے، سامنے گھر والوں کا بکرا بہت ہی پیارا ہے، پورے ڈیڑھ من کا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دکھاوے اور نمود و نمایش کے مقابلے کی اپنی ہی قیمت ہوتی ہے ۔ آہ کہ اس عید یہ قیمت ہمارے خاندان نے ادا کی اور وہ بھی بہت بھاری۔ اتنی بھاری کہ اسکا بوجھ نسلیں محسوس کریں گی۔ دھوم تو اب بھی ہو گی۔ اتنی کہ سالوں تک لوگ ہماری داستان سنائیں گے۔
میرے بابا کو سیاست کا لپکا تھا۔ ایک نام تھا ان کا، مقام تھا علاقے بھر میں۔ کسی کا کوئی سرکاری کام ہوتا، چاہے جائز یا نا جائز، وہ کرتے۔ ان کو یہ فقرہ سننے کا بہت ہی شوق تھا: "ملک صاحب کی کیا ہی بات ہے؟" سال ہی ہوا ہوگا کہ ہمارے گھر پارٹی لیڈر، جو وزیر اعظم بھی رہے ہیں، آۓ تھے۔ علاقے بھر میں بہت واہ واہ ہوئی تھی۔ پارٹی لیڈر کے ساتھ میرے بابا کے نعرے بھی لگے۔لیکن نعرے لگنے سے کیا ہوتا ہے؟ ضروری تو نہیں لوگ جس کے لیے یک زبان زندہ باد کہیں وہ زندہ بھی رہے۔ بہر حال میرے بابا بہت خوش ہوۓ تھے۔ میں بھی بہت خوش ہوئی تھی۔ جہاں جاتی تھی لوگ کھڑے ہو جاتے تھے۔ سب کو پتہ تھا کہ میں ملک صاحب کی بیٹی ہوں۔ صرف دو ماہ پہلے تک یہ سب تھا، صرف دو ماہ پہلے تک۔
علاقے بھر میں سب لوگ میرے بابا سے بہت خوش تھے۔ سواۓ تنویر ڈوگر کے گھر کے۔ میرے بابا ان کو اک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ بس نہیں چلتا تھا ان کا کہ وہ میرے بابا اور ان کے پورے خاندان کو یک مشت نگل جائیں۔ لیکن بس تو چل گیا ان کا۔ نگل تو گئے وہ میرے جوان دو بھائی اور میرے بابا۔ بچا کیا ہے۔ ہم عورتیں۔ جو لڑ نہیں سکتیں۔ یا پھر وہ بھائی جوبرسوں پہلے ہی اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔ حواس تو اس نے برسوں پہلے کھوۓ تھے لیکن یوں لگتا ہے کہ ہوش میں بس وہ ہی ہوتا ہے۔ خیر کچھ بھی ہے، وہ ہم عورتوں کا سہارا تو نہیں بن سکتا ناں۔ اب رو رہی ہیں ہم عورتیں، نہ صرف آپس میں گلے لگ لگ کر بلکہ اسی ڈوگر کے خاندان سے بھی۔ ان کا بھی تو کچھ نہیں بچا ناں۔ جھگڑے کی آگ نے سب کچھ پھونک کر رکھ دیا۔ اب تو راکھ ہے، صف ماتم ہے، وحشت ہے، ویرانی ہے۔ کاش جو گلے آج لگے ہیں، عید سے ایک دن پہلے لگ جاتے۔ یہ جانوروں کی نمود کی دوڑ نہ ہوتی، یہ واہ واہ کروانے کی خواہش نہ ہوتی۔ سب جگہ خوشی ہوتی یا کم از کم زندگی تو ہوتی۔ مرد وہاں بھی زندہ ہوتے اور یہاں بھی۔ ڈوگر کے گھر کی بیٹیاں ویسے بھی میری سہیلیاں تھی، میرے ساتھ اکیڈمی میں پڑھتی تھیں دونوں بہنیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ہوا کیا تھا جس کا نوحہ یہ میں لکھ رہی ہوں۔ تو سنیے!
ہمارے ہاں کی قریب کی منڈی میں عید سے پانچ دن پہلے ایک بیل آیا۔ خاصا خوبصورت اور موٹا تازہ۔ مالک بتاتا تھا کہ اسکا وزن پچیس من ہے اور اسکی قیمت اس نے بارہ لاکھ روپے رکھی تھی۔ وہ اسے وہ غذائیں کھلاتا تھا جو ہمارے ہاں بہت سے انسانوں کو بھی میسر نہیں۔ بیل کے منڈی میں آتے ہی ہمارے پورے علاقے میں دھوم ہو گئی۔ میں نے بھی اسکا ذکر نہ صرف کالج میں سنا بلکہ اکیڈمی میں بھی۔ چھپ کر میں اور وہ ڈوگروں کی بیٹی نادیہ دیکھنے بھی گئے لیکن ہم بیل تک پہنچ نہ سکے تھے۔ اول تو ہمیں صحیح طور پر منڈی کا راستہ پتہ نہیں تھا اور دوسرا ہمیں ڈر تھا کہ مجھے اور ڈوگروں کو اکٹھے کوئی پہچان نہ لے۔ ہم دونوں خاندانوں کی دشمنی زبان زد عام تھی۔ پر ہاں ٹی وی پر اس بیل کو میں نے ضرور دیکھا تھا۔ بہت ہی زبردست بیل تھا۔ سفید اور بھورے رنگ کا۔ اوپر سے اس کے مالک نے اسے سجایا ہوا بھی بہت تھا ۔ اسے دیکھتے ہی میرا دل چاہا کہ کاش بابا یہ بیل اپنے لیے خرید لائیں۔ لیکن بابا پہلے ہی قربانی کے لیے جانور خرید چکے تھے۔ دو اونٹ، آٹھ بکرے اور تین بیل۔ ادھر ڈیرے پر سب کھڑے تھے۔ اوپر سے اس کا مالک اس کی قیمت بھی بارہ لاکھ لگا رہا تھا۔ پتہ نہیں بابا اتنا مہنگا جانور خریدنے کا سوچتے بھی یا نہیں۔ لیکن میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب شام کو بابا گھر آے اور امی سے انہوں نے کہا کہ وہ اس بیل کو خریدنا چاہتے ہیں۔ وہ بہت خوش تھے۔ ہمارے ڈیرے پر کھڑے جانوروں کی واہ واہ علاقے میں بہت ہو رہی تھی۔ ڈوگروں نے کوئی ایسی حرکت کی تھی جس سے اشارہ ملتا تھا کہ وہ ہمارے جانوروں سے حسد کا شکار ہیں۔ اب وہ ہم پر بازی لے جانے کے لیے اس بیل کو خریدنا چاہتے ہیں۔ لیکن بابا کہہ رہے تھے کہ وہ ڈوگروں سے پہلے ہی خاموشی سے جا کر اس بیل کو خرید لیں گے۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے بابا کا جملہ کہ وہ ہنستے ہنستے امی سے کہہ رہے تھے:
"ویکھیں کیویں اگ لگدی اے ڈوگراں نوں۔"
یہ کہ کر ہنستے ہنستے بابا باہر نکل گئے۔ وہ آخری ہنسی تھی جو میں نے بابا کی سنی۔ کیونکہ اس کے بعد واقعی آگ لگ گئی۔ ایسی آگ کہ جل کر ہر چیز سیاہ ہو گئی۔ پھر نہ کوئی جلنے والا رہا اور نہ جلانے والا۔ ماتم ہوا ایسا کہ چیخیں میلوں دور بھی سنائی دیں۔
بابا جب اپنے ڈیرے سے بیل خریدنے کو نکلے تو اطلاع کسی نے جا کر ڈوگروں کو دے دی۔ ڈوگر بھی ضد میں آکر گھر سے نکل آۓ۔ وہاں موجود لوگ بتاتے ہیں کہ جب ڈوگر پہنچے تو میرے بابا بیل خرید چکے تھے، بس پیسے پکڑانے لگے تھے کہ ڈوگروں نے جاتے ہی بیل کی قیمت پندرہ لاکھ لگا دی اگر سودا ان سے طے ہو جاۓ تو۔ بیل کے بیوپاری نے پندرہ کا ڈوگروں کو بیچنا چاہا۔ اس پر میرے بابا غصے میں آگئے۔ ڈوگر ہتھیار لے کر آۓ تھے۔ انہوں نے گن پوائنٹ پر بیل خریدنا چاہا۔ بابا نے بھائیوں کو فون کر دیا۔ وہ بھی ہتھیار لے کر پہنچ گئے۔ شدید فائرنگ ہوئی۔ جب فائرنگ تھمی تو نہ کوئی گولی چلانے والا رہا تھا اور نہ گولی کھانے والا۔ سب مٹی ہو چکا تھا۔ کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ بیل اور بیوپاری بیچارے بے قصور ہی مارے گئے۔
آہ!
دل چاہ رہا ہے چیخوں، زور زور سے چیخوں۔ ہمت جواب دے گئی ہے۔ صبر ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کاش بابا کے دل میں صرف سنت ابراہیمی کا جذبہ ہوتا۔ وہ صرف انہی جانوروں پر قناعت کر لیتے جنہیں قربان کرنے والا عید والے دن کوئی نہیں تھا۔ میں نہیں جانتی کیا بنا ان کا۔ صرف اتنا جانتی ہوں کہ قربانی سے پہلے ہم قربان ہو چکے تھے۔