سلام ٹیچر ڈے پر خصوصی افسانہ: "راہ مشکل تو ہے " (حصہ دوم)

جمیل اپنے ہی خیالات میں محو تھا جب دو موٹر سائیکل سواروں نے اس کے قریب آ کر اپنی موٹر سائیکلیں روک دیں ۔  

" سر خیریت ؟"
عالمی یومِ اساتذہ پر خصوصی افسانہ پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیےایک موٹر سائیکل سوار نے پوچھا جو بالکل نوجوان تھا۔ دوسری موٹر سائیکل پر سوار آدمی کی عمر لگ بھگ چالیس سال رہی ہو گی ۔ دونوں موٹر سائیکل سوار اپنے حلیے سے ٹھیٹھ دیہاتی معلوم ہوتے تھے ۔
" جی بیٹا ۔۔ بس یہ بائیک کی چین کا کچھ مسئلہ ہے ۔۔۔ پتہ نہیں اتر گئی ہے یا ٹوٹ گئی ہے " جمیل نے مخصوص روایتی اساتذہ والے لہجے میں کہا ۔ نوجوان نے اسے سر کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ یہ اندازہ لگانا جمیل کے لیے مشکل نہیں تھا کہ وہ اسے جانتا ہے جیسا کہ علاقے کے اکثر لوگ اسے بطور استاد اب جانتے بھی تھے اور پہچانتے بھی تھے ۔
" سر آپ نے شاید مجھے پہچانا نہیں ؟"
نوجوان نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا ۔ 
"معذرت کے ساتھ نہیں بیٹا " جمیل نے ذہن پر زور دینے کے باوجود اسے پہچاننے میں ناکامی کے بعد جواب دیا ۔
" میں شمس ہوں سر۔۔۔ آپ کا پرانا نالائق سٹوڈنٹ ۔۔۔ اور یہ میرے چاچو  ہیں"۔  نوجوان نے اپنا اور اپنے چچا کا تعارف کرواتے ہوئے کہا ۔ نام لینے پر جمیل کو یاد آیا کہ یہ نوجوان اس کو سکول میں تفویض ہونے والی پہلی کلاس کا طالب علم تھا ۔ ظاہر ہے نو دس سال بعد اب وہ گبھرو جوان ہو چکا تھا ۔
"اوہ! اچھا یاد آ گیا شمس بیٹا ۔۔۔ ماشاءاللہ اب تو جوان ہو گئے ہو۔ " جمیل نے شمس کو گلے لگاتے ہوئے کہا ۔ اس کے چچا سے بھی اس نے مصافحہ کیا ۔ علیک سلیک اور رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد شمس نے بتایا کہ اس کے چچا کی اپنی آٹو ورکشاپ ہے اور وہ ان سے کام سیکھ رہا ہے ۔ شمس کے چچا نے بغیر کہے ہی جمیل کی موٹر سائیکل کی مرمت شروع کر دی۔ انہوں نے اپنی موٹر سائیکل کے ٹول باکس سے اوزار نکالے اور چند منٹوں میں چین کور کے نٹ کھول دیے اور کور اتارتے ہی اعلان کر دیا کہ چین ٹوٹ چکی ہے ۔ اچانک شمس کے چچا کے موبائل کی رنگ ٹیون ان کی سائیڈ پاکٹ سے سنائی دینے لگی ۔ ان کے ہاتھ موٹر سائیکل کے "آپریشن" کے دوران سیاہ ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے شمس کو ان کی جیب سے موبائل نکالنے کو کہا۔ شمس نے موبائل نکال کر بتایا کہ کریانہ سٹور والے نعیم صاحب کی کال ہے۔ شمس کے چچا اس دوران موٹر سائیکل کی صفائی کے لیے رکھا کپڑے کا ٹکڑا ہاتھ میں پکڑ چکے تھے ۔ انہوں نے کپڑے میں لپیٹ کر موبائل فون کان سے لگا لیا ۔
" ییلو ۔۔۔ جی۔۔۔ جی حاجی صاحب ۔۔۔ آپ کی گاڑی ریڈی ہے بس مجھے صبح صبح نکلنا پڑا ہنگامی طور پر ۔۔۔ یہاں گاؤں میں کچھ مسئلہ ہو گیا ہے ۔۔۔ کہاں خیریت حاجی صاحب ۔۔۔ رات چور بھائی جان کی دکان کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے تھے ۔۔۔ کافی نقدی اور سامان چوری ہوا ہے ۔۔۔ اسی سلسلے میں گاؤں جا رہے ہیں ۔۔۔ شام تک آپ کو گاڑی مل جائے گی ۔۔۔"
شمس کے چچا کی کال پر ہونے والی گفتگو سے جمیل پوری طرح سمجھ گیا تھا کہ وہ کہاں سے آ رہے تھے اور کدھر جا رہے تھے ۔
" ماسٹر جی! موٹر سائیکل کی چین ٹوٹ چکی ہے اور چین کو لاک لگوانے کے لیے کسی مکینک کے پاس لے کر جانا پڑے گا ۔۔۔ آپ سکول سے لیٹ ہو رہے ہوں گے ۔۔۔ آپ ایسا کریں میری موٹر سائیکل پر پہنچیں ۔۔ ہم چین کی مرمت کروا کر سکول پہنچا دیں گے" شمس کے چچا نے اپنی موٹر سائیکل کی چابی جمیل کو تھماتے ہوئے کہا۔ ان کی کال پر ہونے والی گفتگو سننے کے بعد ان کی یہ پیشکش جمیل کے لیے باعث حیرت تھے ۔
" لیکن میرے خیال میں آپ بھی جہاں جا رہے ہیں وہاں جلدی پہنچنا ضروری ہے " جمیل نے حیرت اور ممنونیت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا۔
" او چھڈو جی ماسٹر صاحب! اس کم تے کہڑا سال لگ جانا اے (اس کام پہ کون سا سال لگ جانا ہے)" انہوں نے ہنستے ہوئے کہا اور خود میری موٹر سائیکل پر بیٹھ گئے جبکہ شمس اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا ۔ شمس نے اپنی موٹر سائیکل کو سٹارٹ کر کے ایک ہاتھ سے اپنی موٹر سائیکل کا ہینڈل سنبھالا اور دوسرے ہاتھ میں چچا کا ہاتھ تھام لیا یوں دونوں موٹر سائیکلیں حرکت میں آ گئیں ۔ میں بھی اخلاقاً ہلکی ہلکی سپیڈ پر ان کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل چلانے لگا۔
" سر جی! آپ پہنچیں سکول ۔۔۔ ہم وہاں پہنچا دیں گے آپ کی موٹر سائیکل" شمس نے جمیل سے مخاطب ہو کر کہا اور اس کو ناچاہتے ہوئے بھی موٹر سائیکل کی رفتار بڑھانا پڑی ۔
وہ سکول کی طرف تیزی سے بڑھتا ہوا سوچ رہا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی پریشانی بھلا کر اس کے مسئلے کو حل کرنے میں جتے ہوئے تھے ۔۔۔ کیا رشتہ تھا اس کا ان دو اشخاص سے ۔۔۔وہ کیوں اس قدر عزت و احترام سے پیش آ رہے تھے اس کے ساتھ ۔۔۔ وہ جس قدر ان سوالات کے جوابات تلاش کرتا اسی قدر شرمندگی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ۔ اسے افسوس ہو رہا تھا کہ چند معاشی مسائل کی وجہ سے وہ معاشرے کے اتنے معزز اور معتبر مقام سے دستبردار ہونے کا سوچ رہا تھا جو قدرت نے بن مانگے اس کی قسمت میں لکھ دیا تھا ۔
سکول پہنچنے پر حسبِ معمول پرنسپل صاحب نے اسے لیٹ پا کر اپنا سوال دہرایا ۔
" آج مسئلہ میرا اپنا تھا سر۔۔۔ چین ٹوٹتے ٹوٹتے بچی ہے ۔ اب امید ہے سفر کبھی نہیں رکے گا " جمیل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور پرنسپل صاحب اس سے غیر متوقع جواب پا کر بے اختیار مسکرا دیے ۔
اپنی کلاس روم کی طرف بڑھتے ہوئے اسے بہت دیر پہلے پڑھا ہوا ایک شعر یاد آ رہا تھا ۔
راہ مشکل تو ہے اے دل لیکن 
ایسی مشکل نہیں کہ راہ بدلوں

متعلقہ عنوانات