اے ماہِ رمضان الوداع: کیا کھویا کیا پایا
غم خواری، قربت الٰہی اور خوداحتسابی کی دعوت دیتا مبارک مہینا رمضان المبارک کی آخر وہ گھڑیاں آپہنچیں جب یہ ہم سے وداع ہورہا ہے۔ ان مبارک ساعتوں میں بھی جو نیک کام کیے وہ محض خداوند تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق اور اس کی کرم نوازی سے ہی ممکن ہوپائے۔ خدا کی قربت پانے والے کبھی نیکی پر اِتراتے نہیں ہیں بلکہ نیکی کی تکمیل پربھی عاجزی کے پیکر بنے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے ان نیک بندوں کا ذکر فرماتے ہوئے کہاہے:
"اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں اتنا کچھ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود ) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں (کہیں یہ نامقبول نہ ہوجائے)ََ۔"
(ترجمہ عرفان القرآن ،سورۃ المومنون آیت نمبر 60)
رمضان کا مہینا مومن کی تربیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔مومن کی زندگی رمضان میں گزرے لمحات کا ایک پَرتَو ہونی چاہیے۔روزے میں خدا تعالیٰ کے خوف اور محبت میں کھانے پینے اور شہوت سے باز رہتا ہے جو کہ عام حالت میں اس کے لیے حلال ہیں، پھر رمضان کے بعد اس کے احساس میں تازگی آجاتی ہے کہ وہ عام دنوں میں حلال رزق کو حلال طریقے سے کمائے اور حرام رزق سے اپنا دامن صاف کرلے۔اپنے اندر بھوک پیاس کے احساس کو زندہ رکھے اور ان لوگوں کی طرف توجہ فرمائے جو ان نعمتوں سے محروم ہیں ۔
رمضان کا مہینا احتساب کا بھی مہینا ہے۔ روزہ دار ان مبارک ساعتوں میں خدا کے سامنے عاجزی اور دل داری سے سربسجود ہو اور اپنے اندر جھانکے،گناہوں سے توبہ کرے اور آئندہ ان سے باز رہنے کا عزم کرے۔ایسے روزہ دار کے لیے خوش خبری ہے جو ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھے اور عبادتِ الٰہی میں وقت گزارے۔ حضوراکرم ﷺ کا فرمان ہے:
"جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے ،اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے" (صحیح بخاری)
رمضان المبارک کے بعد بھی روزہ دار کی طرح زندگی بسر کی جائے۔ روزہ مسلمان کی "اوور ہالنگ" کردیتا ہے جیسے اس سے گناہوں کو بوجھ اور آلائشیں صاف ہوگئی ہوں۔ اس پاکیزگی اور تقویٰ کے اثرات کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رمضان کے بعد اپنا مسلسل جائزہ لیتے رہیں کہ اس مہینے میں جو سیکھا اس پر کتنا عمل ہورہا ہے۔ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول تھا لیکن ہم اس میں کامیاب ہوپائے اور رمضان کے بعد بھی اس کو کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔۔۔اس کے لیے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
رمضا ن کے مہینے کو نبی کریمﷺ نے شھرالمؤاساۃ قرار دیا۔ رمضان کا مہینہ شھرالمؤاساۃ بھی ہے۔ یعنی انسانوں کے ساتھ باہمی ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ خاص طور پر معاش اور رزق کے معاملہ میں ایک دوسرے کی تنگی اور محرومی، پریشانی اور دکھ میں شرکت اور مدد کا مہینہ ہے ۔
معاشرے میں ایسے لوگوں کو تلاش کی جیے جو محرومی کا شکار ہیں، حالات کی ستم گری نے ان کی کمر توڑڈالی ہے، اپنوں کی بے وفائی نے ان کے دل توڑ دیے ہیں، پریشانیوں نے ان کو نڈھال کردیا ہے ۔۔۔ان سے غم خواری کیجیے، ان کا ساتھ دیجیے، ان کے دکھ بانٹیے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ لانے والے بنیے۔۔۔یہ ہے رمضان کا حاصل۔
رمضان المبارک میں قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کی جاتی ہے۔رمضان کے بعد بھی اپنا تعلق قرآن مجید سے مضبوط کی جیے۔قرآن مجید کی تلاوت حرزِ جاں بنائیے اور قرآن فہمی کو زندگی کا لازمہ بنالیجیے۔
رمضان سخاوت کا مہینہ بھی ہے۔کشادہ دلی کے ساتھ دوسروں کے لیے اپنے بازوؤں کو بھی کھول دی جیے۔ حضرت محمد مصطفٰے ﷺ سخیوں کے سردار تھے لیکن اس مبارک مہینے میں نبی کریمﷺ کی سخاوت کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ حضرت عبداللہ بن عبا سؓ روایت کرتے ہیں: رسول اللہﷺ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے میں بہت سخی تھے اور رمضان میں جب جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺسے ملتے تو آپﷺ اور بھی زیادہ سخی ہوجاتے۔ رمضان میں ہر رات جبرائیلؑ آپ ﷺ سے ملا کرتے اور نبی اکرم ﷺ رمضان گزرنے تک انہیں قرآن سناتے، جب جبرائیل ؑ آپ ؐسے ملتے تو آپ ﷺفیاضی میں تیز ہواؤں کی مانند ہو جاتے (صحیح البخاری: 1902)۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ نبی مکرمﷺ رمضان میں عام دنوں کی نسبت زیادہ خرچ کرتے اور اس صدقہ کا فائدہ ہر ایک کو پہنچتا جس طرح تیز ہوا ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کریں اور یاد رکھیں کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کا اجرکئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔رمضان کے اختتام پر اہل و عیال، رشتے دار وں، فقراء اورمساکین کو عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے فطرانہ وصدقات دل کھول کر ادا کیجیے۔
مشہور عالمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے رمضان المبارک کے اختتام پر خوداحتسابی کا ایک خاکہ پیش کیا ہے:
اپنا جائزہ لیجیے: کیا یہ رمضان ہمارے اندرمثبت تبدیلی یا بہتری لانے کا سبب بنا؟
حقوق اللہ: کیا میں نے
٭کوئی روزہ بغیر عذر یا بیماری کے تو نہیں چھوڑا؟ اگر ایسا کیا ہے تو توبہ اور فدیہ ادا کیجیے۔
٭فرض نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کیا؟ آئندہ بھی اس کی پابندی کیجیے۔
٭قیام اللیل (نماز تراویح) کا اہتمام کیا؟
٭ تلاوت قرآن پاک اور اس کے معانی پر غور و فکر کیا؟
٭ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا؟
٭عام اوقات کے علاوہ خصوصیت سے قبولیت کے اوقات میں دعائیں مانگیں؟
٭آخری عشرے کی طاق راتوں میں خصوصی عبادات کا اہتمام کیا؟
٭ اللہ کی رضا کی خاطراپنا مال اللہ کے بندوں پر اور نیکی کے کاموں میں خوشی سے خرچ کیا؟
٭زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی عبادت میں گزارا؟
حقوق العباد : کیا میں نے
٭ والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی؟
٭ اپنے گھر والوں کے آرام کا خیال رکھا؟
٭ دکھی انسانوں کی غم خواری اور ہمدردی کی؟
٭ بیماروں کی تیمارداری کی؟
٭ گھریلو ملازمین کی ذمہ داریوں میں کمی کی یا کاموں میں اُن کا ہاتھ بٹایا؟
٭ جھوٹ، غیبت، بد گمانی، تجسس اور عیب جوئی سے بچنے کی کوشش کی؟
٭کسی کا دل تو نہیں دکھایا؟ حق تلفی تو نہیں کی؟
٭مشکلات و مصائب پر صبرو تحمل سے کام لیا؟
٭ سلام میں پہل کی؟ ہر ایک کو مسکرا کر ملے؟
کیا روزے کے مقصد تقویٰ کو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی؟