قومی زبان

ہر ایک چہرے پہ دل کو گمان اس کا تھا

ہر ایک چہرے پہ دل کو گمان اس کا تھا بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا بہت دنوں سے مجھے یاد بھی نہیں آتا تمام عمر ہی مجھ کو دھیان اس کا تھا میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا میں اس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا پھر اس ...

مزید پڑھیے

طلسم عشق تھا سب اس کا سات ہونے تک

طلسم عشق تھا سب اس کا سات ہونے تک خیال درد نہ آیا نجات ہونے تک ملا تھا ہجر کے رستے میں صبح کی مانند بچھڑ گیا تھا مسافر سے رات ہونے تک عجیب رنگ بدلتی ہے اس کی نگری بھی ہر ایک نہر کو دیکھا فرات ہونے تک وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک ہے ...

مزید پڑھیے

اس کی یادوں کا سلسلہ ہوگا

اس کی یادوں کا سلسلہ ہوگا اس کہانی میں اور کیا ہوگا جب بچھڑ کر بھی وہ خموش رہا گھر پہنچ کر تو رو دیا ہوگا خود کو سمجھا لیا ہے میں نے مگر کیا وہ خود بھی بدل گیا ہوگا اتنا آساں نہ تھا مجھے کھونا اس نے خود کو گنوا دیا ہوگا مجھ کو ویران کر دیا جس نے کہیں آباد تو ہوا ہوگا سوچتا ہوں ...

مزید پڑھیے

یہ دور وہ ہے کہ جس کا نسب نہیں کوئی

یہ دور وہ ہے کہ جس کا نسب نہیں کوئی اداس ہوں تو بہت ہوں سبب نہیں کوئی وہ جس میں یادوں کے روشن چراغ جلتے ہیں بہت سی راتیں ہیں لیکن وہ سب نہیں کوئی گواہ تھا جو ہماری تمہاری چاہت کا شجر وہ اب بھی وہاں ہے اور اب نہیں کوئی اسی امید پہ روشن ہے خواہشوں کا نگر وہ آ بھی جائے پلٹ کر عجب ...

مزید پڑھیے

طلسم عشق تھا سب اس کا ساتھ ہونے تک

طلسم عشق تھا سب اس کا ساتھ ہونے تک خیال درد نہ آیا نجات ہونے تک ملا تھا ہجر کے رستے میں صبح کی مانند بچھڑ گیا تھا مسافر سے رات ہونے تک عجیب رنگ یہ بستی ہے اس کی نگری بھی ہر ایک نہر کو دیکھا فرات ہونے تک وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک ہے ...

مزید پڑھیے

دل کو اس کا خیال پیہم ہے

دل کو اس کا خیال پیہم ہے وقت کو یہ ملال پیہم ہے خواہشوں کا تری حضوری میں وہی دست سوال پیہم ہے اس کی قربت کی آگ ہے دل میں آسماں پر ملال پیہم ہے کاروبار جہاں میں یاد اس کی جیسے کوئی کمال پیہم ہے زخم بھرتے نہیں ہیں یادوں کے لذت اندمال پیہم ہے وہ نہیں ہے تو وقت کچھ بھی نہیں وہی بس ...

مزید پڑھیے

میں اس کے وصل سے جاگا تو سلسلہ تھا وہی

میں اس کے وصل سے جاگا تو سلسلہ تھا وہی کہ ہجر اس کا تھا ویسا ہی مرحلہ تھا وہی دکان شیشہ گراں بھی سجائی تھی اس نے تمام شہر میں پتھر بھی بانٹتا تھا وہی مجھے گمان کے سب راستے اسی نے دیے مرے یقیں کے دیے بھی جلا رہا تھا وہی وصال اس کا برتنا تھا ہجر لکھنا بھی کہ تیز دھوپ میں بارش کا ...

مزید پڑھیے

وہ مجھ کو دیکھ نہ پائے میں مستقل دیکھوں (ردیف .. ی)

وہ مجھ کو دیکھ نہ پائے میں مستقل دیکھوں ستارہ جیسے کوئی دور جگمگائے کبھی بنوں میں لہر کبھی اور وہ میرا ساحل ہو میں اس کو ڈھونڈنے جاؤں وہ مجھ کو پائے کبھی غبار راہ کی وحشت ہوا پہ لکھی تھی مگر یہ لوگ وہ تحریر پڑھ نہ پائے کبھی تمہارے شہر سے عزت جنوں کی جاتی ہے گھروں پہ شیشے لگاؤ ...

مزید پڑھیے

تم بھی دیکھو جو ہم نے دیکھا ہے

تم بھی دیکھو جو ہم نے دیکھا ہے شہر میں اک نیا تماشا ہے رقص کرتے ہوئے ہیں لوگ مگر گھنگھرو پتھر کا سب نے باندھا ہے ساری مصروفیت کی وجہ وہی وہی ہر خواب کا حوالہ ہے سب خیالوں کا ایک محور وہ سارے لمحوں کا وہ شناسا ہے اس کو دیکھا تو سوچتا ہی رہا خواب نے واقعہ تراشا ہے مل کے دیکھا تو ...

مزید پڑھیے

زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب

زخم کب کا تھا درد اٹھا ہے اب اس کے جانے کا دکھ ہوا ہے اب میری آنکھوں میں خواب ہیں جس کے اس کی آنکھوں میں رت جگا ہے اب سنتے آتے ہیں قافلہ دل کا رہ گزر میں کہیں رکا ہے اب وہ جو پتھر کا تھا مسافر وہ شہر افسوں سے آ گیا ہے اب جو مری خواہشوں کی منزل تھی اس کے آنے کا راستہ ہے اب جس کو ...

مزید پڑھیے
صفحہ 599 سے 6203