ہر ایک چہرے پہ دل کو گمان اس کا تھا

ہر ایک چہرے پہ دل کو گمان اس کا تھا
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا


بہت دنوں سے مجھے یاد بھی نہیں آتا
تمام عمر ہی مجھ کو دھیان اس کا تھا


میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا


میں اس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا


پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی
مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا


تمام دکھ مری آنکھوں میں بجھ گئے لیکن
جو دھیرے دھیرے جلا تھا نشان اس کا تھا


محبتوں کی کہانی میں کون شامل ہے
مجھے تو بارہا خود پر گمان اس کا تھا


ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں
کہ میری راہ میں عادلؔ مکان اس کا تھا