طلسم عشق تھا سب اس کا سات ہونے تک

طلسم عشق تھا سب اس کا سات ہونے تک
خیال درد نہ آیا نجات ہونے تک


ملا تھا ہجر کے رستے میں صبح کی مانند
بچھڑ گیا تھا مسافر سے رات ہونے تک


عجیب رنگ بدلتی ہے اس کی نگری بھی
ہر ایک نہر کو دیکھا فرات ہونے تک


وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک


ہے استعارہ غزل اس سے بات کرنے کا
یہی وسیلہ ہے اب اس سے بات ہونے تک


میں اس کو بھولنا چاہوں تو کیا کروں عادلؔ
جو مجھ میں زندہ ہے خود میری ذات ہونے تک