تم بھی دیکھو جو ہم نے دیکھا ہے
تم بھی دیکھو جو ہم نے دیکھا ہے
شہر میں اک نیا تماشا ہے
رقص کرتے ہوئے ہیں لوگ مگر
گھنگھرو پتھر کا سب نے باندھا ہے
ساری مصروفیت کی وجہ وہی
وہی ہر خواب کا حوالہ ہے
سب خیالوں کا ایک محور وہ
سارے لمحوں کا وہ شناسا ہے
اس کو دیکھا تو سوچتا ہی رہا
خواب نے واقعہ تراشا ہے
مل کے دیکھا تو سلسلہ یہ کھلا
خود ہی دریا ہے خود ہی پیاسا ہے
ذہن میں اس کی یاد یوں آئی
جیسے روشن چراغ آتا ہے