قومی زبان

یہ ضرورت عجیب لگتی ہے

یہ ضرورت عجیب لگتی ہے مجھ کو عورت عجیب لگتی ہے جب بھی بجھتے چراغ دیکھے ہیں اپنی شہرت عجیب لگتی ہے سرحدوں پر سروں کی فصلیں ہیں یہ زراعت عجیب لگتی ہے آگ مٹی ہوا لہو پانی یہ عمارت عجیب لگتی ہے میری آوارگی کو بوڑھوں کی ہر نصیحت عجیب لگتی ہے زندگی خواب ٹوٹنے تک ہے یہ حقیقت عجیب ...

مزید پڑھیے

ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہے

ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہے وہ اب کپڑے بدلنا چاہتا ہے اسے پھولوں سے ہے کوئی شکایت وہ انگاروں پہ چلنا چاہتا ہے ٹھہر جاتے ہیں پلکوں پر ستارے کوئی طوفان ٹلنا چاہتا ہے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مجھ میں کوئی لاوا پگھلنا چاہتا ہے تری آنکھیں کہاں دیکھی ہیں اس نے جو کلیوں کو مسلنا چاہتا ...

مزید پڑھیے

جھپکی نہ آنکھ اور مقدر بدل دئے

جھپکی نہ آنکھ اور مقدر بدل دئے ماچس کی اک سلائی نے منظر بدل دئے بے چہرگی کے کرب نے فکروں کے ہاتھ سے وہ آئنے بنائے کہ پیکر بدل دئے رکنے دیا نہ پاؤں کے چکر نے اک جگہ بستی کے ساتھ ساتھ کئی گھر بدل دئے جادوگروں نے شہر کی پہچان چھین لی جسموں کے ساتھ ساتھ کئی سر بدل دئے منزل کی ...

مزید پڑھیے

مچھلی کود گئی پانی میں

مچھلی کود گئی پانی میں میں ہوں ناحق حیرانی میں راہ میں کانٹے بچھوانے ہیں مجھ کو ہے مشکل آسانی میں ایک سیانی یعنی دنیا اور اک دیوانہ یعنی میں ایک تمنا شیشے کی تھی ٹوٹ گئی کھینچا تانی میں خوابوں کا سودا کر ڈالا نیند نے آخر نادانی میں آ دھمکے ہیں گزرے لمحے شور بپا ہے ویرانی ...

مزید پڑھیے

غلط کہ میرے سر دار حوصلے ٹوٹے

غلط کہ میرے سر دار حوصلے ٹوٹے صلیب جسم سے سانسوں کے رابطے ٹوٹے یہ کیسے رخ پہ بنائے مکان لوگوں نے ہوا چلی ہے تو گھر گھر کے آئنے ٹوٹے نہ جانے کس کی نظر روشنی کی دشمن تھی چراغ جس میں جلے تھے وہ طاقچے ٹوٹے قبیلے اپنی ہی بستی کے جنگجو نکلے خلوص و صدق و محبت کے ضابطے ٹوٹے زمین ڈوب ...

مزید پڑھیے

نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے

نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے مرا بیٹا بھی آوارہ بہت ہے میں شاید پاگلوں سا لگ رہا ہوں وہ مجھ کو دیکھ کر ہنستا بہت ہے یہ بکھری پتیاں جس پھول کی ہیں وہ اپنی شاخ پر مہکا بہت ہے سمٹ جائیں تو دشمن کے مقابل ہماری قوم کا بچہ بہت ہے سمندر سے معافی چاہتے ہیں ہماری پیاس کو قطرہ بہت ہے اسی کے ...

مزید پڑھیے

بھولے بھالے انسانوں کا نام لکھا

بھولے بھالے انسانوں کا نام لکھا کاغذ پر چنگیز لکھا بہرام لکھا سب نے رب کا نام لکھا تعویذوں پر لیکن میں نے اپنی ماں کا نام لکھا سوتے رہئے دھرتی کی چادر اوڑھے اپنے حق میں راوی نے آرام لکھا لوگوں نے کشمیر کی جھیلیں لکھی تھیں میں نے سلگتا اور جلتا آسام لکھا میلے ٹھیلے ڈھولک تاشے ...

مزید پڑھیے

کبھی یہ دار کبھی کربلا سا لگتا ہے

کبھی یہ دار کبھی کربلا سا لگتا ہے مرا وجود کوئی سانحہ سا لگتا ہے ہر ایک سانس پہ زخموں کا اک ہجوم لئے مرے لہو میں کوئی دوڑتا سا لگتا ہے اتر رہا ہے مرے دل میں چیختا سورج یہ واقعہ تو کسی بد دعا سا لگتا ہے اسی کو زہر سمجھتے ہیں میرے گھر والے وہ آدمی جو مجھے دیوتا سا لگتا ہے بجھا ہی ...

مزید پڑھیے

روز پانی کہاں میسر ہے

روز پانی کہاں میسر ہے زندگی ریت کا سمندر ہے کس قدر دل فریب منظر ہے ایک مینار اک کبوتر ہے راستوں میں سکون پاتا ہوں میرا گھر میرے گھر کے باہر ہے اپنی مٹھی تو کھول دوں لیکن میری مٹھی میں اک مقدر ہے تازہ سورج کی دین ہے یارو پھول کے ہاتھ میں بھی پتھر ہے روز یادوں کے پھول کھلتے ...

مزید پڑھیے

مٹی ہوں بھیگنے دے مرے کوزہ گر ابھی

مٹی ہوں بھیگنے دے مرے کوزہ گر ابھی مصروف گردشوں میں ہے دست ہنر ابھی خود بڑھ کے قتل گاہ میں قاتل کے سامنے مقتول ہو گیا ہے بہت با اثر ابھی چہروں بھری کتاب میں ملتی نہیں ہے اب دیکھی تھی تیری شکل کسی صفحہ پر ابھی چمکے تھے لفظ تیری سماعت کی دھوپ میں حسن خیال تھا کہ ہوا معتبر ...

مزید پڑھیے
صفحہ 539 سے 6203