روز پانی کہاں میسر ہے
روز پانی کہاں میسر ہے
زندگی ریت کا سمندر ہے
کس قدر دل فریب منظر ہے
ایک مینار اک کبوتر ہے
راستوں میں سکون پاتا ہوں
میرا گھر میرے گھر کے باہر ہے
اپنی مٹھی تو کھول دوں لیکن
میری مٹھی میں اک مقدر ہے
تازہ سورج کی دین ہے یارو
پھول کے ہاتھ میں بھی پتھر ہے
روز یادوں کے پھول کھلتے ہیں
میرے آنگن میں اک صنوبر ہے
جیسے جاگیر مل گئی ہو اسے
کس قدر خوش مجھے گنوا کر ہے
آپ طارقؔ میاں سے ملئے گا
آدمی کیا ہے اک قلندر ہے