غلط کہ میرے سر دار حوصلے ٹوٹے
غلط کہ میرے سر دار حوصلے ٹوٹے
صلیب جسم سے سانسوں کے رابطے ٹوٹے
یہ کیسے رخ پہ بنائے مکان لوگوں نے
ہوا چلی ہے تو گھر گھر کے آئنے ٹوٹے
نہ جانے کس کی نظر روشنی کی دشمن تھی
چراغ جس میں جلے تھے وہ طاقچے ٹوٹے
قبیلے اپنی ہی بستی کے جنگجو نکلے
خلوص و صدق و محبت کے ضابطے ٹوٹے
زمین ڈوب گئی نفرتوں کی بارش میں
وہ منزلیں ہیں کہ ملنے کے راستے ٹوٹے
زمانہ پڑھتا ہے چہرے کا اب لکھا تسنیمؔ
ہماری ذات پہ یہ کیسے حادثے ٹوٹے