کبھی یہ دار کبھی کربلا سا لگتا ہے
کبھی یہ دار کبھی کربلا سا لگتا ہے
مرا وجود کوئی سانحہ سا لگتا ہے
ہر ایک سانس پہ زخموں کا اک ہجوم لئے
مرے لہو میں کوئی دوڑتا سا لگتا ہے
اتر رہا ہے مرے دل میں چیختا سورج
یہ واقعہ تو کسی بد دعا سا لگتا ہے
اسی کو زہر سمجھتے ہیں میرے گھر والے
وہ آدمی جو مجھے دیوتا سا لگتا ہے
بجھا ہی رہنے دو یہ بلب روم بند رکھو
گھنا اندھیرا مجھے دل ربا سا لگتا ہے
نہ جانے کون مجھے چھین لے گیا مجھ سے
اب اپنے آپ میں کوئی خلا سا لگتا ہے
میں ہر سوال کا رکھتا ہوں اک جواب مگر
کوئی سوال کرے تو برا سا لگتا ہے
نہ جانے کون چھپا بیٹھا ہے مرے اندر
جو بولتا ہے تو اکثر خدا سا لگتا ہے
نہ جانے اس سے مرا کس جنم کا رشتہ ہے
برا بھی مجھ کو کہے تو بھلا سا لگتا ہے