قومی زبان

ویسے تو سارے لوگ ہی پانی کے ہو رہے

ویسے تو سارے لوگ ہی پانی کے ہو رہے ان میں سے کچھ ہی لوگ روانی کے ہو رہے چلنے لگے تو نقل مکانی کے ہو رہے ان میں سے ہم نہیں ہیں جو نانی کے ہو رہے دن بھر رہے نثار چمن میں گلاب پر ڈھلتے ہی شام رات کی رانی کے ہو رہے سوز و گداز شوق و ہوس جرأت و جنوں کردار میرے اس کی کہانی کے ہو رہے ہم کو ...

مزید پڑھیے

محبت میں شکایت کر رہا ہوں

محبت میں شکایت کر رہا ہوں شکایت میں محبت کر رہا ہوں سنا ہے عادتیں مرتی نہیں ہیں سو خود کو ایک عادت کر رہا ہوں وہ یوں بھی خوب صورت ہے مگر میں اسے اور خوب صورت کر رہا ہوں کسے معلوم کب آئے قیامت سو ہر دن اک قیامت کر رہا ہوں اداسی سے بھری آنکھیں ہیں اس کی میں صدیوں سے زیارت کر رہا ...

مزید پڑھیے

اس طرح رسم محبت کی ادا ہوتی ہے

اس طرح رسم محبت کی ادا ہوتی ہے آج سے تیری مری راہ جدا ہوتی ہے میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہوں جب بھی کانوں میں اذانوں کی صدا ہوتی ہے بد دعا کوئی اگر دے تو برا مت مانو بد دعا بھی تو مری جان دعا ہوتی ہے نیند کے ساتھ ہی اک باب نیا کھلتا ہے خواب کے ٹوٹنے جڑنے کی کتھا ہوتی ...

مزید پڑھیے

کبھی کسی نے جو دل دکھایا تو دل کو سمجھا گئی اداسی

کبھی کسی نے جو دل دکھایا تو دل کو سمجھا گئی اداسی محبتوں کے اصول سارے ہمیں بھی سکھلا گئی اداسی تمہیں جو سوچا تو میرے دل سے اداسیوں کا ہجوم گزرا کبھی کبھی تو ہوا ہے یوں بھی کہ بے سبب چھا گئی اداسی پڑی ہوئی تھی نڈھال ہو کر ہماری آنکھوں کے آنگنوں میں کسی کی آہٹ سنی تو چونکی ذرا سی ...

مزید پڑھیے

اب تو اس سمت سے نفرت بھی نہیں آتی ہے

اب تو اس سمت سے نفرت بھی نہیں آتی ہے ایسے حالات کی شامت بھی نہیں آتی ہے ہجر سے ٹوٹ کے میں آہ و بکا کرنے لگا مجھ اناڑی کو محبت بھی نہیں آتی ہے ہم مراعات کے لائق ہی نہیں ہیں شاید ہم کو تو ٹھیک سے مدحت بھی نہیں آتی ہے یہ ولایت ہے کہ جس راہ پہ وہ چل رہے ہیں اس قدر گر کے تو دولت بھی نہیں ...

مزید پڑھیے

یوں درختوں کی ہے بھر مار پرندے نہیں ہیں

یوں درختوں کی ہے بھر مار پرندے نہیں ہیں کہا جاتا ہے کہ اس پار پرندے نہیں ہیں جو پرندہ ہے وہ تھک ہار کے بیٹھا ہوا ہے اور جو اڑنے کو ہیں تیار پرندے نہیں ہیں شاخ جمہور پہ امروز جو قابض ہیں یہاں بلیاں ہیں وہ خبردار پرندے نہیں ہیں آ رہے ہیں نا کہا نا کہ ہیں رستے میں ابھی ہم بھی انسان ...

مزید پڑھیے

بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے

بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے مجھ کو ملتا وہ زمانے سے ذرا سا پہلے ہجر کی ہم کو کچھ ایسی بری عادت ہے کہ ہم زہر کھا لیں ترے آنے سے ذرا سا پہلے گرچہ پکڑے نہ گئے دوستو لیکن ہم بھی چور تھے شور مچانے سے ذرا سا پہلے کچھ نہیں سوچا پرندوں سے شجر چھین لئے دشت میں شہر بسانے سے ذرہ سا ...

مزید پڑھیے

بڑا ہشیار ہونے لگ گیا تھا

بڑا ہشیار ہونے لگ گیا تھا مرا غم خوار ہونے لگ گیا تھا مری ان سوئی آنکھوں میں اچانک کوئی بے دار ہونے لگ گیا تھا گماں کے بازوؤں کو کاٹ ڈالا علمبردار ہونے لگ گیا تھا مری حسرت نہ نکلی ڈوبنے کی بھنور پتوار ہونے لگ گیا تھا بڑی مشکل سے چھوڑی حق بیانی ذلیل و خوار ہونے لگ گیا ...

مزید پڑھیے

رگ و پے میں اتر گیا سورج

رگ و پے میں اتر گیا سورج جسم کو دھوپ کر گیا سورج دور ہی سے چمک رہے ہیں بدن سارے کپڑے کتر گیا سورج ایک لمحہ کی ہو گئی غفلت مجھ کو پتھر سا کر گیا سورج مجھ کو خوابوں میں باندھ کر رکھا اور ہنس کر گزر گیا سورج پانیوں میں چتائیں جلنے لگیں ندیوں میں اتر گیا سورج میں نے سایوں کی بھیک ...

مزید پڑھیے

اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا

اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا کتنا دشوار ہے اے دوست اکیلے رہنا پاؤں پتھر کئے دیتے ہیں یہ میلوں کے سفر اور منزل کا تقاضہ ہے کہ چلتے رہنا بند کمرے میں کسی یاد کی خوشبو اوڑھے تم بھی غالبؔ کی طرح یاد میں ڈوبے رہنا بہتے رہنے سے تو دریاؤں میں کھو جاؤ گے جھیل بننا ہے تو اک موڑ پہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 538 سے 6203