چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے
چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے اب شہر میں سورج بھی اسے ڈھونڈ رہا ہے میں خوش ہوں بہت کانچ کی پوشاک پہن کر پتھر سے جو ٹکرائی ہے وہ میری صدا ہے وہ شخص جو آئینہ تھا چہروں کے جہاں میں بکھرا تو کسی سے بھی سمیٹا نہ گیا ہے گھر اس کا ہے دروازہ بھی دستک بھی اسی کی آواز کے رشتوں میں وہی ...