مچھلی کود گئی پانی میں

مچھلی کود گئی پانی میں
میں ہوں ناحق حیرانی میں


راہ میں کانٹے بچھوانے ہیں
مجھ کو ہے مشکل آسانی میں


ایک سیانی یعنی دنیا
اور اک دیوانہ یعنی میں


ایک تمنا شیشے کی تھی
ٹوٹ گئی کھینچا تانی میں


خوابوں کا سودا کر ڈالا
نیند نے آخر نادانی میں


آ دھمکے ہیں گزرے لمحے
شور بپا ہے ویرانی میں


عشق کہا تھا نا مت کیجے
رہیے روز پریشانی میں


قوم کے خدمتگاروں کے دن
بیت رہے ہیں سلطانی میں